Sunday, 28 July 2013
92 years old Iraqi man weds with 22 year old girl
In Iraq a 92 Years Old man married a girl who is 72 years older to him
More Details and Amazing News
گرمی سےبچنے کا انوکھا منصوبہ-------------دی نیوز ٹرییب
لندن : راہ میں چھاؤں پھیلانا کسے پسند نہیں مگر پرتگال میں یہ کام ایسے عجب ڈھنگ سے کیا گیا ہے کہ لوگ دنگ ہوکر رہ گئے ہیں۔
جی ہاں پرتگالی شہر آگیوڈا کی گرم گلیوں کو دھوپ کی تپش سے بچانے کا بالکل منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا گیا ہے۔
وہ یہ کہ رنگا رنگ چھتریوں کو
آپس میں اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ نہ صرف دھوپ کی آمد رک گئی ہے بلکہ ایک
خوبصورت منظر بھی وجود میں آگیا ہے۔
خاص طور پر دور سے دیکھنے میں بالکل ایسا لگتا ہے جیسے چھتریاں اڑتی ہوئی آپ کی جانب آرہی ہیں۔
اس خیال کا مقصد نہ صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی کو رنگوں کے امتزاج سے خوبصورت بنانا ہے۔
بلوچستان کی اندوہ ناک صورتحال -----------ڈاکٹر توصیف احمد خان
پروفیسر عبدالرزاق زہری بلوچ اور پروفیسر عبدالحکیم بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ پروفیسر عبدالرزاق بلوچ اور پروفیسر عبدالحکیم ٹیوشن سینٹر میں تدریس کے بعد افطار کے لیے گھر جارہے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار اچانک سڑک پر تیز رفتاری سے آئے، انھوں نے انتہائی قریب سے دونوں اساتذہ پر جدید ہتھیاروں سے گولیوں کی بارش کی۔ پروفیسر عبدالرزاق موقع پر ہی شہید ہوگئے، عبدالحکیم اسپتال میں فوری طبی امداد ملنے پر بچ گئے۔ بلوچستان میں قتل ہونے والے اساتذہ کی تعداد 22 ہوگئی ہے۔ ایک نامعلوم تنظیم نفاذ امن بلوچستان نے ان اساتذہ کے قتل کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔
بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جو تعلیم میں انتہائی پسماندہ ہے، یہاں کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور خواندگی کی شرح بھی ملک میں سب سے کم ہے، اس کے باوجود اساتذہ اور طلبا کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک قتل ہونے والے اساتذہ میں ڈاکٹر پروفیسر صفدر کیانی، پرووائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی، پروفیسر فضل باری سابق چیئرمین بلوچستان بورڈ، پروفیسر سعید عتیق نقوی شعبہ سماجی بہبود، پروفیسر خورشید اختر انصاری لائبریری سائنس، پروفیسر ناظمہ طالب شعبہ ابلاغ عامہ، دانش لیکچرار کمپیوٹر سائنس، صبا دشتیاری استاد شعبہ اردو قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں 100 سے زیادہ طالب علم قتل ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں قتل ہونے والوں میں بلوچ ہزارہ برادری کے علاوہ پنجاب، سندھ اور پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، ڈاکٹر، سرکاری ملازمین اور طلبا بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ان کے 35 ساتھیوں کے علاوہ تین ممتاز سیاست دان بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ان تمام لوگوں کے قتل کی ذمے داری سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔
بلوچستان اس صدی کے آغازسے بحران کا شکار ہے۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے دوسرے دور حکومت میں جب نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل کو وزارت اعلیٰ سے بے دخل کیا گیا تو بلوچستان کی صورتحال کی خرابی کی ابتدا ہوئی تھی مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایجنسیوں نے منصوبے کے تحت بلوچستان میں حالات بگاڑنے شروع کیے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس مری کی ٹارگٹ کلنگ ایک نئے مقدمے کی ابتدا تھی پھر اس مقدمے میں مری قبیلے کے بوڑھے سردار نواب خیر بخش مری کو گرفتار کیا گیا، حکومت اور سیاسی قوتوں میں خلیج پیدا ہوئی۔ نواب اکبر بگٹی کو اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی مگر جب نواب اکبر بگٹی کا قافلہ ڈیرہ بگٹی سے سوئی پہنچا تو انھیں بتایا گیا کہ صدر نے انھیں اسلام آباد لے جانے کے لیے خصوصی طیارہ بھیجا تھا مگر موسم کی خرابی کی بنا پر پرواز ممکن نہیں ہے مگر کچھ دیر بعد یہ طیارہ اچانک پرواز کرگیا یوں ایک بلوچ سردار کی سرعام تذلیل کی گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ بگٹی پر بمباری شروع کردی۔ اکبر بگٹی نے حکومت سے بات چیت کی کوشش کی مگر مقتدر حلقوں کی جانب سے سرد مہری کا رویہ اختیار کیا گیا اور وہ وقت آیا کہ نواب اکبر بگٹی نے چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین کو بات چیت کا اختیار دیا مگر جنرل مشرف نے دھمکی دی کہ راکٹ کہاں سے آئے گا کہ پتہ نہیں چلے گا۔
نواب اکبر بگٹی ایک آپریشن میں شہید ہوئے، یوں بلوچستان تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ بلوچ نوجوانوں نے بندوق کو نجات کا ذریعہ سمجھ لیا اور بعض عناصرنے دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس لڑائی میں اساتذہ، ڈاکٹر، صحافی، پولیس افسر، سرکاری ملازمین، حجام، دکاندار تک نشانہ بنے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوا اور جو لوگ بچ گئے وہ صوبہ چھوڑ گئے۔ ان اساتذہ نے جو بلوچستان میں تعلیم عام کرنے میں اہم کردار ادا کررہے تھے ان کی ٹارگٹ کلنگ اور پھر زندہ بچنے والوں کی ہجرت کا نقصان طلبا اور صوبہ کو ہوا۔ سیکیورٹی ایجنسیوں نے سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ 2000 سے شروع کیا ہوا تھا مگر 2008 کے بعد سے ان کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملنا شروع ہوئی۔ اس دوران 2008 میں ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ بلوچستان میں قوم پرست تنظیموں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور ایجنسیوں کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کو کامیاب کرانے کا موقع ملا۔ نواب اسلم رئیسانی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر وزیراعلیٰ بن گئے اور اپوزیشن ایک رکن تک محدود ہوئی۔
نواب رئیسانی کی حکومت کا کنٹرول صرف کوئٹہ تک محدود رہا۔ وزراء نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے یہ الزام لگایا کہ بعض وزرا اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی نسل کشی ہوتی رہی۔ ہزارہ برادری کی بستیوں اور مساجد تک کو نشانہ بنایا گیا، یونیورسٹیوں کی بسوں پر بھی حملے ہوئے۔ کوئٹہ شہر امن و امان کی بدترین صورتحال کا شکار ہوا۔ الزام لگایا گیا کہ ہزارہ برادری کے قتل عام کی ذمے دار ایک کالعدم تنظیم ہے جس کی سرپرستی بعض بلوچ سردار کرتے ہیں اور کوئٹہ کے مضافاتی پہاڑی علاقے ان کی کمین گاہیں ہیں۔ بلوچستان میں گورنر راج کی نوبت آئی۔ سپریم کورٹ کے بلوچستان بے امنی کیس میں سیاسی کارکنوں کے اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کی ذمے داری فرنٹیئر کانسٹبلری پر عائد کی مگر سپریم کورٹ کے جامع فیصلے نہ ہونے کی بناء پر صورتحال پر فرق نہیں پڑا مگر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح ہوا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں حقائق کی تصدیق کے لیے ایک کمیشن بھیجا۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے اس مشن کا خیر مقدم نہیں کیا مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام نہیں ہوسکی۔ آج بھی کراچی پریس کلب کے سامنے صحافی عبدالرزاق کے رشتے دار اس کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں نیشنل پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں خاطر خواہ نمایندگی ملی مگر اکثریت مسلم لیگ ن کو حاصل ہوئی، وزیراعظم نواز شریف نے جواں سال سیاسی کارکن ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ نامزد کیا۔ یہ ایک انتہائی اہم اور مثبت تبدیلی تھی اور حقیقی بلوچ نمایندوں کی پذیرائی کی گئی۔ ڈاکٹر مالک نے واضح کیا کہ سیاسی کارکنوں کا اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ برداشت نہیں کیا جاسکتا اور انھوں نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے والے مسلح گروہوں سے امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی اپیل کی۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ بلوچستان میں پولیس، فرنٹیئر کانسٹبلری اور خفیہ ایجنسیاں وزیراعلیٰ کی نگرانی میںکام کریں گی مگر حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ اپنی پرانی پالیسی پرکاربندہے۔پروفیسر عبدالرزاق بروہی کا قتل اس کی واضح مثال ہے۔ ڈاکٹر مالک جیسے ہمہ جہت سیاسی کارکن کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر مالک کی ناکامی محض ان کی ذاتی یا ان کی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ وفاق کی بھی ناکامی ہوگی اور اعتدال پسند قوتوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ وہ بلوچستان ری پبلکن پارٹی کی اطاعت پر مجبور ہوں گے۔ فوری طور پر پروفیسر عبدالرزاق زہری بلوچ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور تمام صورتحال کا جائزہ لے کر تمام سیکیورٹی فورسز کو وزیراعلیٰ کی نگرانی فرائض انجام دینے کا پابند کیا جائے تاکہ بلوچستان میں ایک مستقل امن و امان کی صورتحال قائم ہو اور بلوچ عوام بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے اور صوبائی خودمختاری اور آئین پر عملدرآمد ہوسکے۔
کونسل آف ایلڈرز----جاوید چوہدری
شیخ حفیظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ یہ زندگی کی 76 بہاریں دیکھ چکے ہیں‘ شیخ صاحب نے بھرپور زندگی گزاری‘ جوانی میں یورپ گئے اور پورا یورپ ٹرینوں‘ بسوں اور پیروں پر دیکھ ڈالا‘ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی‘ ناکام رہے‘ پاکستان واپس آئے‘ مختلف جابز کیں‘ ان سے تھک گئے تو بینک میں ملازمت کر لی‘ یہ ان کی آخری ملازمت تھی‘ یہ پوری زندگی کے لیے بینکر بن کر رہ گئے‘ یہ 1997ء میں ایک بڑے بینک سے سینئر نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور16 برسوں سے ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ جوانی میں رمل کے شوق میں بھی مبتلا ہو گئے‘ رمل کا علم سیکھا اور مہارت حاصل کر لی‘ یہ کتابیں پڑھنے کے بھی شیدائی ہیں‘ یہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں اور یہ برسوں سے شوگر کی دوا بنانے میں بھی مصروف ہیں غرض آپ جس زاویے سے دیکھیں آپ شیخ صاحب کو ایک دلچسپ اور شاندار انسان پائیں گے۔
میری ان سے پہلی ملاقات 1999ء میں ہوئی‘ میں اس وقت تازہ تازہ ’’مشہور‘‘ ہوا تھا اور یہ ’’مشہوری‘‘ مجھ سے روزانہ بے شمار غلطیاں کرواتی تھی‘ پھر شیخ صاحب ملے اور انھوں نے میری نکیل پکڑ لی‘ یہ زندگی کے ہر معاملے میں میری رہنمائی کرنے لگے‘ ان کا پہلا سبق بہت دلچسپ تھا‘ ان کا کہنا تھا آپ جتنے بھی طاقتور ہو جائیں‘ آپ جتنے بھی کامیاب ہو جائیں‘ آپ وقت کو واپس نہیں پلٹ سکتے مثلاً آپ ساٹھ سال کی عمر میں دنیا کے امیر ترین شخص ہو جائیں اور آپ اپنی ساری دولت خرچ کر دیں تو بھی آپ بیس پچیس سال کے جوان نہیں ہو سکیں گے چنانچہ آپ جوانی کے کام جوانی ہی میں کرو‘ انھیں بڑھاپے کے لیے بچا کر نہ رکھو‘ ان کا کہنا تھا ’’میں دنیا دیکھنا چاہتا تھا‘ میں افریقہ‘ امریکا‘ جنوبی ایشیا اور آسٹریلیا دیکھنا چاہتا تھا مگر میں پھر جاب میں پھنس گیا اور ہمیشہ یہ سوچتا رہا میں جب معاشی لحاظ سے آزاد ہو جاؤں گا تو میں اپنی یہ خواہش پوری کروں گا‘ میں پچاس پچپن سال کی عمر میں خوش حال ہوگیا مگر اس وقت تک میرا جسم بوڑھا بن چکا تھا‘ میں شوگر کا مریض ہو چکا تھا۔
مجھے بلڈ پریشر کی بیماری بھی لگ چکی تھی لہٰذا میں ’’افورڈ‘‘ کرنے کے باوجود ملک سے باہر نہیں جا سکتا تھا‘ زندگی کے ہر شوق کی ایک عمر ہوتی ہے‘ اگر یہ عمر گزر جائے تو پھر آپ ’’افورڈ‘‘ کرنے کے باوجود وہ شوق پورا نہیں کر سکتے ‘ میرا مشورہ ہے آج کے دن میں زندہ رہنا سیکھو کیونکہ کل آ جائے گا لیکن آج دوبارہ نہیں آئے گا‘‘ اور میں نے یہ سیکھ لیا‘ میں نے اپنے شوق کی فہرست بنائی‘ ان کے سامنے عمر کے وہ حصے لکھے جن میں یہ ممکن ہیں اور پھر ان کی تکمیل میں جت گیا‘ اس فہرست میں سفر‘ جاگنگ‘ ایکسرسائز‘ریستوران‘ جینز‘ فلمیں‘دنیا بھر کے کامیاب لوگوں سے ملاقاتیں اور کتابیں شامل ہیں‘ ان کا دوسرا سبق ’’واک‘‘ تھا‘ میں لیٹ سوتا ہوں چنانچہ صبح نہیں اٹھ سکتالہٰذا میں واک کی روٹین نہیں بنا پاتا تھا‘ شیخ صاحب نے یہ ’’متھ‘‘ توڑ دی‘ انھوں نے بتایا‘ واک کا کوئی وقت اور کوئی جگہ نہیں ہوتی‘ آپ گاڑی میں جوگر رکھو اور جہاں موقع ملے‘ جو گرز پہنو اور واک شروع کر دو‘ میں نے یہ شروع کر دیا اور یوں ایک مہینے میں واک میری زندگی کا معمول بن گئی۔
شیخ حفیظ نے بتایا‘ فیملی سپریم ہوتی ہے‘ ان کا کہنا تھا ’’میرے تمام عزیز ایک ایک کر کے میری زندگی سے نکل گئے‘ دوست ساتھ چھوڑ گئے یا دور چلے گئے‘ میں اس جاب سے ریٹائر ہو گیا جس کے لیے میں نے خون‘ پسینہ اور زندگی کے قیمتی ترین دن اور رات دیے تھے‘ یوں میری زندگی سے ہر وہ چیز رخصت ہو گئی جس کو میں اہم سمجھتا تھا اور آخر میں صرف فیملی رہ گئی‘ میرے ساتھ اب صرف میرے بچے ہیں چنانچہ جس چیز نے آخری سانس تک آپ کا ساتھ نبھانا ہے اس پر کسی قسم کا ’’کمپرومائز‘‘ نہیں ہونا چاہیے‘ اسے سپریم رہنا چاہیے‘‘ میں نے یہ بات بھی پلے باندھ لی‘ میں فیملی پر کمپرومائز نہیں کرتا‘ شیخ صاحب نے سکھایا ’’ وعدہ نہیں توڑنا‘ اگر ایک بار کمٹمنٹ کر لی تو پھر اسے ٹوٹنا نہیں چاہیے اور آپ کی اس عادت کا پوری دنیا کو علم ہونا چاہیے‘ دوست بہت کم ہونے چاہئیں لیکن شاندار ہونے چاہئیں‘ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت راضی رکھیں کیونکہ اگر وہ آپ کے ساتھ ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ کے خلاف ہے۔
بچت کو آپ کے اخراجات سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے‘آپ 75 فیصد خرچ کریں صرف 25 فیصد بچائیں کیونکہ آپ اپنی خواہشوں اور حسرتوں کو دبا کر بچت کرتے ہیں اور یہ بچت کسی بھی وقت ضایع ہو سکتی ہے‘ لوگوں سے توقعات وابستہ نہ کریں‘ ان پر اعتبار کرنے سے پہلے کم از کم تین بار انھیں ٹیسٹ کر لیں‘ آپ اپنے راستے پر سیدھا چلتے رہیں‘ یہ نہ دیکھیں آپ کو کون کیا کہہ رہا ہے‘ کون آپ کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے‘آپ کسی الزام کا جواب نہ دیں کیونکہ جو لوگ آپ کو جانتے ہیں ان کی نظر میں ان الزامات کی کوئی حیثیت نہیں اور جو آپ سے واقف نہیں ہیں وہ آپ کی وضاحت کو اعتراف جرم یا دال میں کالا سمجھیں گے‘‘ شیخ صاحب نے سمجھایا‘بے غرض ہو جائو‘ لوگوں کی محتاجی سے نکل جائو گے اور انسان کا کام انسان کی سب سے بڑی پبلک ریلیشننگ ہوتا ہے‘‘ شیخ صاحب نام نہاد روحانیت کے بھی سخت خلاف ہیں‘ میں ایک وقت میں بزرگوں کی تلاش میں رہتا تھا‘ مجھے جس شخص کے سر میں راکھ نظر آتی تھی‘ میں اس میں پیر کامل تلاش کرنا شروع کر دیتا تھا۔
شیخ صاحب نے یہ ’’ متھ‘‘ بھی توڑ دی‘ یہ میرے ساتھ بزرگوں کی محفلوں میں جاتے اور انھوں نے ایک ایک کر کے تمام بزرگ بھگا دیے‘ انھوں نے ثابت کر دیا آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر تمام انسان‘ انسان ہیں اور ہم میں سے ہر شخص خطا‘ طمع اور خوف کا پتلا ہے‘ انھوں نے سمجھایا محنت سے بڑا محسن‘ نیک نیتی سے بڑا استاد اور مہارت سے بڑی کوئی جاب نہیں ہوتی‘ شیخ صاحب نے مزید دو دلچسپ چیزیں سکھائیں‘ انھوں نے بتایا‘ دوستیاں ہمیشہ اس وقت خراب ہوتی ہیں جب کوئی دوست آپ سے اپنا راز شیئر کرتا ہے اور آپ اس راز کے استعمال کی غلطی کر بیٹھتے ہیں‘ یہ مثال دیتے ہیں‘ فرض کرو آپ کا کوئی دوست آپ کو یہ بتا دیتا ہے‘ اس کے پاس اتنی رقم ہے اور آپ بعد ازاں اس سے ادھار مانگ لیتے ہیں‘ ادھار کا یہ مطالبہ آپ کا تعلق ہمیشہ کے لیے خراب کر دے گا‘ آپ کا دوست جب کوئی راز شیئر کرے تو آپ اس سے کبھی کوئی مطالبہ نہ کرو کیونکہ یہ مطالبہ بددیانتی ہو گا۔
انھوں نے دوسری بات سمجھائی آپ اپنے کسی عزیز‘ دوست یا کولیگ کے ساتھ کتنے ہی ناراض ہوں لیکن وہ شخص جب کسی ایمرجنسی میں آپ کو فون کرے تو آپ اپنی ناراضی کا اظہار نہ کریں‘ آپ فوری طور پر اس کی مدد کریں اور کام ہونے کے بعد وہ اگر شکریہ ادا کرنے آئے تو آپ ہلکے پھلکے انداز میں اسے سمجھا دیں تم نے فلاں وقت میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی‘ میں تم سے ناراض تھا مگر مجھ سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں گئی اور میں اختلاف اور ناراضی کے باوجود تمہارے ساتھ چل پڑا‘ شیخ صاحب نے سمجھایا آپ کبھی دل کے کمزور یا بے حوصلہ شخص کے لیے اسٹینڈ نہ لیں کیونکہ وہ شخص اپنے دعوے سے منحرف ہو جائے گا‘ وہ مخالف پارٹی سے صلح کر لے گا مگر آپ لوگوں سے اپنے تعلقات خراب کر بیٹھو گے‘آپ ہمیشہ ایسے بہادر اور بااصول لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جو اپنے اسٹینڈسے پیچھے نہ ہٹیں ٗجو آپ کو میدان میں اکیلا نہ چھوڑجائیں‘ انھوں نے سمجھایا‘ عزت اوردولت میں جب بھی کسی ایک کے انتخاب کا وقت آئے تو دولت کی قربانی دو کیونکہ دولت زندگی میں باربارآتی ہے مگر عزت ایک بارچلی جائے توپھرکبھی واپس نہیں آتی‘ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں بالخصوص بیٹیوں کی تمام جائز ضروریات پوری کیاکرو‘ ان کا کوئی مطالبہ یاتقاضا مسترد نہ کرو کیونکہ بچے والدین کی محبت کو پوری زندگی یاد رکھتے ہیں۔
شیخ صاحب میرے عملی استاد ہیں ‘ یہ تجربہ کار بھی ہیں‘ عالم بھی اور اس سے کہیں زیادہ نیک نیت بھی لہٰذا میں جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوتاہوں یا کسی کنفیوژن میں پھنس جاتا ہوں یا کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا تو میں شیخ صاحب سے رابطہ کرتا ہوں اور اونچی آواز میں کہتا ہوں ’’بابا جی گیدڑ آ گئے ہیں‘‘ اور شیخ صاحب کا قہقہہ نکل جاتاہے‘ گیدڑ شیخ صاحب کی ایک دلچسپ اصطلاح ہے‘ یہ کہا کرتے ہیںوسوسے اور اندیشے گیدڑ ہیں‘ یہ انسان کو اکثر گھیر لیتے ہیں اورآپ اگر ان پر قابو پانا سیکھ جائیں تو آپ مسائل کے گرداب سے نکل آتے ہیں آپ اگر یہ فن نہیں سیکھتے توگیدڑ آپ کی صلاحیتیں کھا جاتے ہیں‘ میں ان کے قہقہے کے بعد اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ اس کے دو حل تجویز کرتے ہیں‘ ایک حل علمی ہوتاہے‘ یہ پڑھی لکھی رائے ہوتی ہے اوردوسرا حل تجربہ ہوتا ہے‘ شیخ صاحب مجھے بتاتے ہیں‘ وہ زندگی کے کس حصے میں اس قسم کے مسئلے کا شکارہوئے تھے‘ انھوں نے غلط فیصلہ کیا تھا اور اس کا انھیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا‘ وہ اپنے کسی نہ کسی جاننے والے یا دوست کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور یوں ہم حل پر پہنچ جاتے ہیں‘ میں اکثر اپنے دوستوں یا جاننے والوں کوبتاتاہوں‘ میری عمرہزار سال ہے‘میں بیالیس سال کا ہوں‘ میرا استاد 76 سال کا اور ہماری کتابیں880 سال کی ہیں اور یہ ہزار سال کا تجربہ مجھے راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا۔
یہ میری زندگی کا تجربہ ہے‘ ہمارے دوست اورہمارے سیاستدان بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ آپ کی زندگی میں بھی بے شمار تجربہ کار لوگ موجود ہوں گے‘ آپ ان میں ستر پچھتر سال کے پڑھے لکھے ٗ تجربہ کار ٗ ذہین‘نیک اور بے لوث لوگ چنیں اور آپ انھیں اپنا استاد بنا لیں‘ یہ آپ کو زندگی کے بے شمار مسائل سے بچائے رکھیں گے‘ یہ آپ کوغلط مشیروں‘ غلط لوگوں اور غلط فیصلوں سے بھی محفوظ رکھیں گے آپ اگرحکمران ہیں تو آپ ایک ’’کونسل آف ایلڈرز‘‘ بنا لیں‘ یہ تجربہ کار بزرگوں کی ایک ایسی خفیہ کونسل ہو جو آپ کو مشکل وقت میں مشورے دے‘ آپ ان مشوروں پر عمل کریں اور اپنی ذات اور اپنے ملک دونوں کو مسائل سے نکال لیں‘ عربی کہاوت ہے ’’مشورے کا وقت آئے تو کبھی ذہین شخص سے مشورہ نہ کریں ٗ تجربہ کار کی مدد لیں‘‘۔
I’m a very religious person, says Veena Malik
I’m a very religious person, says Veena Malik at her Visit to Daegah Hazrat Nizamuddin Aulya
Click Here For Detailed News
A harvest of hate (Dr Abdus Salam to Malala, there is a long list)
Masters as we are of snatching defeat from the jaws of victory, we have always ensured that we fall in love with the wrong causes. The art of belittling excellence, not aspiring for it, has become our recent obsession. Anyone who dares to excel in any field is loathed, often excommunicated, ambushed or abandoned. That’s how open-hearted we have become. From Dr Abdus Salam to Malala, there is a long list of heroes who became our victims and eventually our enemies. How dumb can you be to do something so stupid? Evidently dumb.
But then there is the legacy of pain and hate. That pain begets hate or hate gives birth to pain, is anybody’s guess. There is no gainsaying that we are a nation born in pain, brought up in misery. And yes, we live in a rough neighborhood that makes us more susceptible to paranoia but how long will we deny that most of our demons are of our own inventions? Like an insolent child, we can refuse to accept our fault, find excuses for everything that we have done, but that will change nothing.
We sowed seeds of pain, expecting love and happiness as a produce, and now the harvest of hate is ready for reaping. Amazingly, while we always had some taste for conspiracy theories, fuelled by our desire to reconcile ignorance with some thirst for knowledge, the last decade has done more to poison our minds and souls than the rest together.
Dictators know the knack of gathering around them a deadly coterie of sycophants. When the dictators go, this coterie, just in order to survive, uses its former glory to blind people and deceive them. And their gift of creating discord is amazing. They divide and penetrate the ranks of every division and lead the flanks to Lilliputian wars of egos. And hence, the chances of a democratic and intellectual recovery are lost for decades.
Just close your eyes for a second and place yourself in the shoes of Malala. Try living through the fear of a young girl ambushed on her way back from the school. Try imagining her pain after being shot by a grown-up criminal. And ask yourself which idiot would spew hate against her after this ultimate sacrifice. Had she been in India and done this much for their country, a temple would have already been built in her honour.
They now say Malala is a conspiracy hatched by the West to propagate against the peace-loving citizens of this country and our culture. Sirs, if you notice, it is no Western message. Your state has been telling the world how much we have sacrificed in the war on terror and that while we are facing the unending scourge of terrorism, we are resilient. Malala, then, is an embodiment of our message.
Then why do they accuse of her of bringing a bad name to the country? That is because somewhere in our hearts and minds, we have not stopped owning the Taliban. Had we disowned them, we would have realised that Malala is on our side and they are killing us all with impunity. Forty thousand and counting and yet, we cannot stand up with one symbol that defines us all. What a pity.
This sad realisation brings back bad personal memories. Almost two decades ago, I came to Islamabad to study further, a simple Pakistani and a simple Muslim. Arriving in this city, I was informed that that is not my identity and that my ethnicity, my mother tongue and sect defined who I was, not my nationhood. I have fought this reductionism all my life. But I have repeatedly been defeated. Today, I stand here a beaten, defeated man.
The tragedy of this state is that it fears change. It has no realisation that what it calls its world view and view of itself is not objective reality but just an infection. It tries to shoot down anyone who tries to administer medicine. Like it or not, we have made up our mind. We have chosen our assassins over our rescuers. Now, they will sow more seeds for posterity. More hate in return.
Published in The Express Tribune, July 27th, 2013.
Subscribe to:
Posts (Atom)