Sunday 1 September 2013

عمر اکمل کے کیریئر سے نہ کھیلا جائے

بہترین فارم کے باوجود ویسٹ انڈیز سے زمبابوے بھیجنے کے بجائے عمر اکمل کو وطن واپس بلا لیا اور اب اسپتالوں کے چکر لگوائے جا رہے ہیں فوٹو : فائل
2009ء کی بات ہے، ہمیشہ کی طرح شعیب اختر اور پی سی بی کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔
آئی سی سی ورلڈ ٹوئنٹی20 ایونٹ سر پر تھا، ایونٹ کے لیے اسکواڈ میں اسپیڈ اسٹار کو بھی شامل کیا گیا۔ ان دنوں وہ فارم اور فٹنس کے حوالے سے جدوجہد کر رہے تھے، اچانک پی سی بی نے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں شعیب اختر کی ’’مخصوص بیماری‘‘ کا ذکر کر کے انھیں ٹیم سے دستبردار کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے وہ دنیا بھر میں مذاق کا نشانہ بن گئے،۔میڈیا نے ان کی کردار کشی بھی کی۔ غصے میں آگ بگولہ ہو کر شعیب نے بورڈ کو عدالت میں لے جانے کی بھی دھمکی دی مگر پھر اسے عملی جامہ نہ پہنایا۔اب 2013ء جاری مگر پی سی بی کا انداز نہیں تبدیل ہوا۔
البتہ اس بار نوجوان بیٹسمین عمر اکمل نشانہ بنے، صحت کے حوالے سے شکوک پھیلا کر بورڈ نے انھیں ذہنی مریض بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کیریئر کی بہترین فارم کے باوجود ویسٹ انڈیز سے زمبابوے بھیجنے کے بجائے وطن واپس بلا لیا اور اب اسپتالوں کے چکر لگوائے جا رہے ہیں۔ لاہور میں کلیئر ہوئے تو مزید ٹیسٹ کے لیے کراچی بھیج دیا، وہاں بھی رپورٹ ٹھیک آئی تو نجانے اب کہاں بھیجا جائے گا؟ مقصد انھیں صرف ’’بیمار‘‘ ثابت کرنا دکھائی دیتا ہے۔ عمر اکمل کو جس طرح ٹیم سے دستبردار کرا کے سرفراز احمد کو شامل کیا گیا اس سے کئی شبہات جنم لیتے ہیں۔

ایسا دکھائی دیا کہ ٹیم میں شامل کچھ لوگ انھیں پسند نہیں کرتے، کیریبیئن جزائر میں انھوں نے جس طرح بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ میں عمدہ پرفارم کیا اس سے تو مخالفین کی نیندیں اڑ گئیں۔ ایسے میں انھیں ایک موقع ملا تو کام دکھا دیا۔ وطن واپسی کے بعد بھی عمرکو زمبابوے بھیجا جا سکتا تھا مگر ٹیسٹ کرانے کے بہانے تاخیر کی جاتی رہی۔ اب جبکہ ون ڈے سیریز ختم ہو چکی یقینا کسی بھی دن بورڈ کا یہ پریس ریلیز سامنے آ جائے گا کہ عمر اکمل کو کوئی خطرناک بیماری نہیں۔ حیران کن بات ہے کہ اگر وہ اتنے زیادہ بیمار تھے تو 16ٹیسٹ،76 ون ڈے اور45 ٹوئنٹی 20انٹرنیشنل میچز کیسے کھیل لیے؟ کبھی گراؤنڈ میں کیوں انھیں دورہ نہیں پڑا اور اگر ماضی میں بھی ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہو چکا تو بورڈ نے اس وقت کیوں دستبردار کرا کے علاج نہیں کرایا؟ ایک انسان کہہ رہا ہے کہ میں ٹھیک ہوں مگر اسے بیمار کہہ کر اذیت دی جاتی رہی۔
گذشتہ کئی برسوں کے دوران پاکستان کو اتنا زیادہ باصلاحیت بیٹسمین نہیں ملا، اگر ان کے کیریئر سے نہ کھیلا جائے تو وہ جاوید میانداد اور انضمام الحق کی طرح ملک کے لیے طویل عرصہ تک خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ٹیم میں کسی کو اگر عمر اکمل کی شکل پسند نہیں تو وہ بھی ملک کے لیے سوچے۔ زمبابوے کے خلاف تو اعتماد سے کھیلا نہیں گیااور بیٹسمین وکٹ پر جا کر رنز بنانا بھول جاتے تھے،ایسے میں ہمیں مثبت انداز میں کھیلنے والے ایک بیٹسمین کی ضرورت ہے۔ بورڈ بجائے عمر اکمل سے الجھنے کے ان کی رہنمائی کرے اور ساتھ دے۔
اگر انھیں کوئی بیماری، چلیں مان لیتے ہیں مرگی ہی ہے تو اس کا خاموشی سے علاج کرانا چاہیے۔ جونٹی رہوڈز نے اسی مسئلے کا شکار ہونے کے باوجود طویل عرصے کرکٹ کھیلی مگر پروٹیز بورڈ نے کبھی معاملہ اچھال کر ان کی تضحیک نہیں کی۔ اب پی سی بی کو یہ خدشہ ہو گا کہ اگر عمر اکمل کو فٹ قرار دے دیا تو اس سے جگ ہنسائی ہو گی کہ کیوں ویسٹ انڈیز سے واپس بلایا گیا تھا۔ عمر اکمل کی جگہ ٹیم میں شامل ہونے والے سرفراز کو کئی مواقع مل چکے لیکن وہ خود کو نہیں منوا سکے۔حالیہ سیریز میں بھی وہ29رنز ہی بنا سکے، اس تنازع میں ٹیم منیجر معین خان کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ انہی کے کہنے پر سرفراز کا انتخاب ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ معین کو ابتدا میں ہی متنازع بنانے کی کوئی کوشش ہو لہٰذا انھیں ضرور وضاحت دینی چاہیے، بہرحال اس پورے واقعے سے پاکستان کرکٹ کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور تنازعات کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔ معاملے سے درست انداز سے نہ نمٹ کر پی سی بی نے بھی اپنی نااہلی ثابت کر دی۔
پاکستانی ٹیم نے زمبابوے کے خلاف ایک ون ڈے ہارنے کے بعد سیریزاپنے نام کر لی۔ ہو سکتا ہے کہ نگراں چیئرمین کھلاڑیوں کے لیے اس ’’کارنامے‘‘ پر نقد انعام کا بھی اعلان کر دیں، گوکہ فتح جس کیخلاف ہو اہمیت رکھتی ہے مگر اس دورے کے آغاز سے ہی کوچ، منیجر اور کپتان سب نے منفی اپروچ اپنائی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اپنے بیان میں زمبابوے کو آسان حریف قرار نہ دے کر سخت مقابلوں کی پیشگوئی کرتا دکھائی دیا، ایسا محسوس ہوا جیسے قوم کو کسی اپ سیٹ کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے اور پھر پہلے ون ڈے میں شکست سے یہ حقیقت عیاں بھی ہو گئی۔
زیادہ نوجوان کھلاڑیوں کو نہ آزمانے پر تنقید کی زد میں آئے ہوئے کپتان مصباح الحق کو بھی ’’آرام ‘‘ نہ کرنے کے فیصلے کا جوازمل گیا۔ میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ اگر اس سیریز میں مصباح، حفیظ اور سعید اجمل جیسے مسلسل کرکٹ کھیلنے والے پلیئرز کو ریسٹ دے کر ینگسٹرز کو موقع دیا جاتا تو وہ بھی شائد ایک میچ ہار کر سیریز تو جیت ہی لیتے۔ ایسا نہ کرنے کا نقصان سب کے سامنے ہے، تیسرے ون ڈے میں حفیظ ہیمسٹرنگ انجری کا شکار ہوئے، مصباح بھی کمر پکڑ کر لیٹے، گوکہ دونوں نے میچ مکمل کیا مگر یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
پلیئرز انسان ہیں کوئی مشین نہیں،کئی برسوں سے یہ مسلسل کھیل رہے ہیں ایسے میں ایک آسان سیریز چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں تھا مگر عدم تحفظ کا احساس ایسا نہیں کرنے دیتا۔ مصباح کو ڈر ہے کہ 40برس کی عمر میں اگر ایک بار باہر ہوئے تو کہیں واپسی مشکل نہ ہو جائے، حالانکہ انھیں قطعی ایسا نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ وہ ٹیم کے سب سے زیادہ تسلسل سے اسکور کرنے والے بیٹسمین ہیں۔ رواں برس تو انھوں نے انتہائی شاندار کھیل پیش کیا، زمبابوے کے خلاف بھی ان کی بیٹنگ بہترین رہی، جنوبی افریقہ اور سری لنکا سے سخت سیریز بھی سر پر ہیں ایسے میں ٹیم کو یقینا مصباح کے تجربے کی ضرورت پڑے گی۔ البتہ انھیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیے، منفی انداز کا ان کی بیٹنگ پر بھی اثر پڑتا ہے۔کبھی وہ اتنی سست بیٹنگ کرنے لگتے ہیں کہ ون ڈے بھی ٹیسٹ لگتا ہے،حریف کو کبھی آسان نہیں سمجھنا چاہیے مگر عوامی سطح پر اپنا خوف ظاہر کرنے کا مطلب اسے دباؤ سے آزاد کرنا ہوتا ہے، پاکستان نے یہی غلطی کی، اسی وجہ سے پہلے ون ڈے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے لوگوں کو ایک بار پھر باتیں بنانے کا موقع مل گیا، حالانکہ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے کہ اہم موقع پر جنید سے کیچ ڈراپ ہو گیا۔ بولرز نے لوز گیندیں کیں، بیٹسمین وکٹ پر جا کر سو گئے، اوپنرز کو جب یاد آیا کہ رنز بھی بنانے ہیں تو وکٹ گنوا دی، ویسے بھی کرکٹ بائی چانس ہے، کبھی کبھار ایک ہی میچ میں کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں،انھیں شکوک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ کئی اپ سیٹس میں پاکستانی ٹیم ہی ملوث ہوتی ہے اس میں بھی کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ اس سیریز سے گرین شرٹس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ زمبابوے کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا۔
پاکستان کے لیے تشویش کی بات اوپننگ جوڑی ہے۔ طویل عرصے سے اس شعبے میں جدوجہد جاری ہے۔ چند میچز میں کوئی پیئر سیٹ ہو تو پھر دوبارہ ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ناصر جمشید نے جس طرح اچھا پرفارم کیا ایسا محسوس ہونے لگا کہ ٹیم کی مشکلات کم ہونے لگی ہیں مگر پھر ان سے عمدہ فارم روٹھ گئی، رواں سال کا آغاز بھارت کے خلاف کولکتہ میں سنچری سے کرنے کے بعد سے 18میچز میں وہ24 کی معمولی اوسط سے صرف435رنز ہی اسکور کر سکے۔ اس میں 2ففٹیز شامل ہیں، اگر ٹیم کو اچھا آغاز نہ ملے تو وہ بڑا مجموعہ کیسے پائے گی؟ صرف 50،60رنز جوڑ کر اوپنرز یہ نہ سمجھیں کہ بڑا کارنامہ انجام دے دیا، انھیں کم از کم سنچری شراکت کا ہدف ذہن میں رکھنا ہو گا۔
ناصر کی فٹنس پر کئی سوال سامنے آئے ہیں، فیلڈ میں ان کے ڈھیلے ڈھالے انداز کو وسیم اکرم بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے،اس ناقص کارکردگی کے بعد اگلی ون ڈے سیریز میں ان کی شمولیت کا امکان خاصا کم ہے، وہ ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل نہیں ایسے میں انھیں وطن واپس جا کر اپنی فٹنس پر کام کرنا چاہیے، پاکستانیوں کی یادداشت بہت کمزور ہے وہ بڑے بڑے پلیئرز کو فراموش کر دیتے ہیں، ایسے میں ناصر نے جلد اپنے مسائل سے چھٹکارا نہ پایا تو ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ احمد شہزاد نے رواں سیریز میں اچھا پرفارم کیا مگر بعض اوقات انھوں نے غیر ذمہ داری سے کھیل کر وکٹ بھی گنوائی، انھیں اپنے اندر ٹھہراؤ لانا ہو گا۔ یہی چیز انھیں مستقبل میں بڑی ٹیموں کے خلاف بھی کامیاب بنائے گی، زمبابوے کے پلیئرز تو ایک میچ میں6،6کیچز چھوڑ دیتے تھے پروٹیز ایسا نہیں کریں گے۔

لہٰذا موقع دیے بغیر بڑے اسکور بنانے کی کوشش کرنا پڑے گی، رواں سیریز میں حفیظ کی فارم بھی واپس آ گئی اور انھوں نے چند اچھی اننگز کھیلیں، آل راؤنڈر نے بولنگ بھی مناسب کی، اب انھیں اپنی اس کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔ نائب کپتان ہونے کے ناتے ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے جسے محسوس کیا تو ٹیم کے خاصے کام آئیں گے۔
حالیہ سیریز میں نوجوان عمر امین کا کھیل بھی بہتر رہا، وہ آہستہ آہستہ اپنی صلاحیتوں میں نکھار لا رہے ہیں۔ اگر وہ اسی طرح کھیلتے رہے تو مڈل آرڈر میں جگہ پکی کر سکتے ہیں۔ یوں مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کو وکٹ پر ٹک کر کھیلنے والا نیا پلیئر مل جائے گا۔ حالیہ سیریز میں شاہد آفریدی کی کارکردگی ملی جلی رہی، البتہ بعض اوقات بیٹنگ میں وہ خاصی سمجھداری سے کھیلتے دکھائی دیے جیسے دوسرے ون ڈے میں انھوں نے اچھا کھیل پیش کیا۔
زمبابوے کے خلاف پاکستانی پیس اٹیک بے دانت کا شیر نظر آیا۔ عمر گل کی کمی اب شدت سے محسوس ہونے لگی ہے، وہ اب تیزی سے فٹنس حاصل کرنے لگے اور جلد کم بیک متوقع ہے۔ عمر گل کی عدم موجودگی میں پیسرز زیادہ اچھا پرفارم نہیں کرسکے، زمبابوے کے بیٹسمینوں نے بھی ان کے خلاف اعتماد سے بیٹنگ کی۔ عرفان اب سخت مایوس کرنے لگے ہیں، طویل القامت ہونے کی وجہ سے انھیں خاصی شہرت ملی مگر وہ بیٹسمینوں کے لیے دہشت کی علامت نہ بن سکے۔
دوسرے ون ڈے کے سوا جنید خان کی بولنگ بھی غیرمعمولی نہیں رہی۔2فاسٹ بولرز کے ساتھ کھیلنے کی منطق سمجھ نہیں آئی، کوئی اور ٹیم ہوتی تو رنز کے ڈھیر لگا دیتی مگر بیچارے زمبابوین اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ پچز میں بہت زیادہ ٹرن بھی موجود نہ تھا اس کے باوجود نجانے کیوں مصباح الحق نے 4اسپنرز کو کھلایا۔ سعید اجمل ان دنوں ماضی کے جیسے کارآمد ثابت نہیں ہو رہے،ایسا لگتا ہے کہ حریف بیٹسمین ان کی بولنگ سمجھنے لگے ہیں۔ اب سعید کو نئی ورائٹی لانی ہو گی بصورت دیگر ان کا جادو آہستہ آہستہ کم ہونے لگے گا۔

ٹی ٹوئنٹی اورون ڈے میں کامیابی کے بعد اب پاکستان کی زمبابوے سے ٹیسٹ سیریز ہونے والی ہے۔ میزبان کرکٹرز کے اپنے بورڈ سے مالی تنازع نے میچز کا انعقاد خطرے میں ڈال دیا۔ دنیائے کرکٹ میں میچ فیس سے محروم واحد پلیئرز زمبابوین ہی ہیں، ان کے ساتھ حقیقت میں ناانصافی ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ مسئلہ حل ہو جائے گا بصورت دیگر سیریز نہ ہونے سے کرکٹ کے ماتھے پر ایک بدنما داغ لگ سکتا ہے۔ پاکستانی پلیئرز کو آئندہ ماہ جنوبی افریقہ کے خلاف یو اے ای میں سیریز سے قبل ہاتھ کھولنے کا اچھا موقع مل گیا۔ امید ہے کہ وہ اسے جانے نہیں دیں گے۔
skhaliq@express.com.pk

No comments:

Post a Comment