Sunday 22 June 2014

حسین ملزم جس پر خواتین دل و جان سے فدا..................bbc urdu


پولیس نے 30 سالہ جیریمی ميِكس کوگرفتار کر کے اُن کا یہ مگ شاٹ یا چہرے کی تصویر اپنے فیس بک صفحے پر شائع کی تھی
بالی وڈ یا لالی وڈ کی فلموں میں دل چرانا یا دل کے ارمانوں پر ڈاکے پڑنے کی بات عموماً ہوتی ہے مگر امریکہ میں پولیس محکمے کے سرکاری فیس بک صفحے پر پوسٹ کی گئی ایک مشتبہ مجرم کی تصویر نے ہزاروں کے دل چرا لیے ہیں۔
پولیس نے 30 سالہ جیریمی ميِكس کو 19 جون کو گرفتار کر ان کا مگ شاٹ یا چہرے کی تصویر اپنے فیس بک صفحے پر شائع کی تھی جو ایک معمول کی کارروائی
پولیس کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس حسین مشتبہ مجرم کی تصویر فیس بُک پر اتنی مقبول ہو جائے گی کہ اب تک تقریبا 88 ہزار مرتبہ لائک کیا جا چکا ہے جبکہ اسے 11500 سے زیادہ بار شیئر بھی کیا جا چکا ہے۔
اگر اس تصویر کے نیچے دیکھیں تو اب تک اس پر 24119 کمنٹس دیے جا چکے ہیں جن کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔
ميك کی تصویر پر تبصرے کرنے والی زیادہ تر خواتین ہیں، جو ان کے چہرے اور شکل وشباہت کی تعریف کر رہی ہیں۔
بغیر کسی شک کے وہ سٹوكٹن پولیس محکمہ کے فیس بک صفحے پر سب سے مشہور مشتبہ مجرم بن گئے ہیں۔
سٹكٹن پولیس کا کہنا ہے کہ ميكس کو ایک آپریشن کے تحت پکڑا گیا ہے۔
"میری بیوی ابھی مجھ سے مل کر گئی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ فیس بک پر میرے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کوئی بڑا سرغنہ نہیں ہوں۔"
جیریمی میِکس
پولیس محکمہ کے ترجمان جوزف سلويا کے مطابق ميكس پر ہتھیار رکھنے کے پانچ الزامات اور گینگسٹر ایکٹ کا ایک الزام عائد کیا گیا ہے۔
پولیس نے ميكس کو علاقے کے سب سے زیادہ متشدد مجرموں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
ایک مقامی ٹی وی چینل کو جیل سے انٹرویو میں جیریمی ميكس نے کہا ہے کہ پولیس نے اس کی کار سے بندوق برآمد کی اور انہیں گرفتار کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میری بیوی ابھی مجھ سے مل کر گئی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ فیس بک پر میرے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کوئی بڑا سرغنہ نہیں ہوں۔‘
فیس بک پر ان کی تصویر پر تبصرے کرنے والی خواتین ان کو ماڈلنگ کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
ایک خاتون ایلی ایبے نے لکھا کہ ’میں بھی اسے گرفتار ہی کر لیتی۔ میں نے آج تک اتنا ہاٹ مجرم نہیں دیکھا‘ جبکہ تانيا ایچ تھامس نے لکھا کہ ’وہ جرم کیوں کر رہا ہے جبکہ وہ ماڈلنگ کرکے کروڑوں کما سکتا ہے۔‘
"وہ جرم کیوں کر رہا ہے جبکہ وہ ماڈلنگ کرکے کروڑوں کما سکتا ہے۔"
تانيا ایچ تھامس
کئی لوگوں نے تو ان کے لیے فیس بُک پر فین پیجز بنا ڈالے ہیں جن میں ان کے چہرے کو مشہور برینڈز کے ماڈلز کی جگہ لگا کر شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ماڈلنگ کر کے کتنے حسین لگ سکتے ہیں۔
ایک فیس بُک صفحے پر اب تک ایک لاکھ 19 ہزار فین جبکہ دوسرے پر 50 ہزار سے زیادہ فینز ہیں۔
ميكس کو فی الحال سین جوكون کاؤنٹی جیل میں نو لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رکھا گیا ہے۔
مگر فیس بک پر ميكس کے پرستار اس سب متاثر نہیں ہیں۔ امبر گومز نے تنقید کی ہے کہ ’چھ الزام اور نو لاکھ ڈالر کی ضمانت، خواتین پاگل ہو گئی ہیں۔‘
پولیس نے گرفتار کیے گئے دیگر تین لوگوں کے مگ شاٹ بھی فیس بک پر شیئر کیے گئے ہیں جنہیں اب تک قریباً ساڑھے تین سو کمنٹس ملے ہیں۔

شہباز کی پرواز کب تک؟ وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

کئی حاسد کہتے ہیں کہ چھوٹا بھائی آمادہ نہیں تو بڑے بھائی کو ہی استعفیٰ مانگ کر فاروقی مثال قائم کرنی چاہیے
بھلا شہباز شریف وزارتِ اعلیٰٰ سے استعفیٰ کیوں دیں؟
کیا انھوں نے دس سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد متاثرین کی تالیفِ قلب کے لیے ازحد پشیمانی کا اظہار نہیں کیا اور کسی بھی انکوائری کے نتائج آنے سے پہلے پہلے اپنے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ، سیکریٹری ڈاکٹر توقیر کو برطرف اور اعلیٰٰ پولیس افسروں کو لائن حاضر نہیں کردیا اور یہ تک نہیں کہہ دیا کہ اگر ثابت ہوجائے کہ سب کچھ ان کے براہِ راست حکم پر ہوا تو فوراً استعفیٰ دے دیں گے۔
اگر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے استعفے کے مطالبے کی بنیاد محض ایک دن میں درجن بھر افراد کی ہلاکت ہے تو پھر تو سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کو کراچی میں روزانہ آٹھ تا پندرہ افراد کی ہلاکت پر ہر شام استعفیٰ جمع کرانا چاہیے۔
کئی حاسد کہتے ہیں کہ چھوٹا بھائی آمادہ نہیں تو بڑے بھائی کو ہی استعفیٰ مانگ کر فاروقی مثال قائم کرنی چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ لاہور میں جو لوگ مرے ان میں کوئی بھی حکیم محمد سعید کے پائے کی شخصیت نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف کا نام لیاقت جتوئی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ اتفاق انڈسٹریز ہے نفاق انڈسٹریز نہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس وزیرِ اعلیٰ کو ٹی وی کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کی پولیس نے آٹھ بندے پھڑکا دیے ایسے معصوم سے استعفے کا مطالبہ کچھ غیر اخلاقی سا لگتا ہے۔ یہاں تو کوئی بندہ ادھار واپس نہیں کرتا اور آپ خون پسینے سے کمایا عہدہ واپس کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ قربان جاؤں اس فرمائش پر۔

شیخ رشید احمد جن کی عوامی مسلم لیگ جس کے حامی ایک سالم تانگے میں پورے آجاتے ہیں۔ پرویز الٰہی جنہوں نے اپنے صاحبزادے مونس الٰہی پر پابندی لگائے رکھی کہ جب تک میں وزیرِ اعلیٰ ہوں بینک آف پنجاب سمیت کسی مالیاتی ادارے کے سامنے سےگذرنا بھی نہیں۔ چوہدری شجاعت حسین جنہوں نے لال مسجد اسلام آباد پر حملے کے فوراً بعد مشرف حکومت کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ تحریکِ انصاف جس کی خیبر پختون خوا حکومت گذشتہ برس طالبان کے ہاتھوں ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے ڈھائی سو قیدیوں کے فرار کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوری مستعفی ہوگئی۔
اب دیکھیے شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کون کررہا ہے؟ شیخ رشید احمد جن کی عوامی مسلم لیگ جس کے حامی ایک سالم تانگے میں پورے آجاتے ہیں۔ پرویز الٰہی جنہوں نے اپنے صاحبزادے مونس الٰہی پر پابندی لگائے رکھی کہ جب تک میں وزیرِ اعلیٰ ہوں بینک آف پنجاب سمیت کسی مالیاتی ادارے کے سامنے سےگذرنا بھی نہیں۔ چوہدری شجاعت حسین جنہوں نے لال مسجد اسلام آباد پر حملے کے فوراً بعد مشرف حکومت کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ تحریکِ انصاف جس کی خیبر پختون خوا حکومت گذشتہ برس طالبان کے ہاتھوں ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے ڈھائی سو قیدیوں کے فرار کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوری مستعفی ہوگئی۔
اس بات سے کون قانون پسند شہری منکر ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر بالخصوص لاہور میں کوئی سڑک یا گلی نوگو ایریا نہیں ہونی چاہیے۔ رائے ونڈ پیلس کے دروازے ہر سائیل کے لیے دن رات کھلے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں شریف برادران کے پرانے گھر کی گھنٹی بجا کر کوئی بھی راہ گیر پانی مانگ سکتا ہے۔ حکمران خاندان کے کسی بھی فرد کو صرف سادی کار میں ایک مسلح پولیس والے کے ساتھ سفر کرنے کی ہی اجازت ہے۔
خود خادمِ پنجاب کا ایمان ِ کامل ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی لیے پنجاب پولیس کے ایلیٹ کمانڈوز کو سختی سے کہا گیا ہے کہ وہ ماضی کی طرح پروٹوکول ڈیوٹیوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے خود کو پیشہ ورانہ تندہی، ایمانداری اور ہمدردی کے ساتھ عوام کے جانی و مالی تحفظ کے لیے وقف سمجھیں۔ تو پھر طاہر القادری کیا آسمان سے اترے ہیں کہ ان کے گھر اور پارٹی دفتر کو سیسہ پلایا قلعہ بنانے اور محافظوں کی فوج رکھنے کی اجازت ہو؟

خود خادمِ پنجاب کا ایمان ِ کامل ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی لیے پنجاب پولیس کے ایلیٹ کمانڈوز کو سختی سے کہا گیا ہے کہ وہ ماضی کی طرح پروٹوکول ڈیوٹیوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے خود کو پیشہ ورانہ تندہی، ایمانداری اور ہمدردی کے ساتھ عوام کے جانی و مالی تحفظ کے لیے وقف سمجھیں۔ تو پھر طاہر القادری کیا آسمان سے اترے ہیں کہ ان کے گھر اور پارٹی دفتر کو سیسہ پلایا قلعہ بنانے اور محافظوں کی فوج رکھنے کی اجازت ہو؟
ٹھیک ہے لاہور چھاؤنی میں ہر سو دو سو گز کے بعد ایک عرصے سے کسی عدالتی اجازت کے بغیر رکاوٹیں کھڑی ہیں اور کوئی بھی شہری بنا شناخت کینٹ کی کسی سڑک پر مٹر گشتی نہیں کرسکتا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کوئی پرندہ کسی کالعدم تنظیم کے ظاہری و پوشیدہ مراکز کے اوپر سے پر پھیلا کر نہیں گذر سکتا۔ مگر یہ تو نیشنل سکیورٹی کے معاملات ہیں۔ انہیں جواز بنا کر ہر قادری پادری اپنی من مانی نہیں کرسکتا۔
ہاں شہباز شریف کو استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ پولیس نے ان کا حکم نہیں مانا۔ بقولِ خود انھوں نے رات گئے ہی ہدایات جاری کردی تھیں کہ تجاوزات ہٹانے کا آپریشن معطل کردیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو اوپر کے احکامات بروقت نیچے تک نہیں پہنچے یا کوئی آسیبِ اعلیٰ وزیرِ اعلیٰ سے بھی بڑا خادمِ اعلیٰ ہے جس نے واضح احکامات کے باوجود پولیس کارروائی جاری رکھنے کے لیے کہا۔
وجہ جو بھی ہو ایک بے خبر و بے بس وزیرِ اعلیٰ کسی بھی باخبر و بااختیار وزیرِ اعلیٰ سے زیادہ نقصان دہ ہے اور وہ بھی آج کے پاکستان میں۔ مثال کے طور پر دیکھیے بلوچستان کے ڈاکٹر عبدالمالک، خیبر پختون خوا کے پرویز خٹک اور سندھ کے سائیں قائم علی شاہ۔ اور بھی نام لیے جاسکتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں فی الحال چار ہی وزرائے اعلیٰ ہیں۔

Monday 2 June 2014

Education policy and local languages By Zubair Torwali Published: June 2, 2014

The writer is executive director at the Institute for Education and Development in Swat
In late 2010, encouraged by the Eighteenth Amendment, the Khyber-Pakhtunkhwa (K-P)provincial cabinet meeting, discussing language instruction, approved a multilingual solution to the teaching of mother languages in schools across the province. For the first time in the history of the province, Hindko, Khowar, Seraiki and Indus-Kohistani were included in the syllabus apart from Pashto, the main language of K-P.
According to the official website of the K-P government, Pashto will be introduced as a compulsory subject in 17 districts from grade one to grade 10, with Hindko, Seraiki, Khowar and Indus-Kohistani introduced in the remaining seven districts of the province. Moreover, the K-P government had also taken steps to see to the formation of a Khyber-Pakhtunhwa Regional Languages Authority (KPRLA), which would work for the promotion of all the languages spoken in the province.
The provincial authorities have, indeed, taken some laudable measures in this regard, but progress in planning and implementation of these policies has yet to be witnessed. Indeed, catering to teaching materials in the local languages is not an easy task. On the one hand, Pakistan still lacks experts in curriculum designing while, on the other, many of the local languages, excluding Pashto, do not have standardised orthographies.
Amongst experts and language activists of the country, there is a collective realisation that many languages of this land are not duly recognised and explored. Owing to the perpetual neglect by the state, indigenous linguists are almost non-existent. There may be considerable awareness among speakers of indigenous local tongues that their languages might be in danger, but effective initiatives have yet to take place to preserve their richness.
Secondly, education and overall community development is actually at risk from current educational policies. Mainstream education today makes students disregard their native languages and culture. The contents of the syllabus are not only insufficient by global standards, but also cause tremendous damage to indigenous wisdom and knowledge by making it inferior in the eyes of youngsters. As a result, people deem their local culture and languages as the main cause of their lagging behind the larger communities in terms of development and progress. This attitude leads to a ‘language shift’ and thus poses a great threat to the linguistic and cultural diversity of the country.
Generally, the overall public education system is inadequate and language teaching is the primary victim. The reasons behind this deplorable situation are, of course, inadequate teaching materials, lack of teacher training, ineffective monitoring and lack of motivation in the teachers. A cursory look at the language textbooks makes it clear that they instruct students in everything but languages. Not only are the lessons in these books boring and unimaginative, they include no exercises in listening, speaking, reading and writing. Most of the lessons in these ‘language books’ are from Islamic history or Pakistan Studies.
The proposed KPRLA should assess languages pedagogy in the smaller languages so as to devise effective language teaching curriculum for the other languages, which would match the global standards of teaching languages. But unfortunately, the authority is now in doldrums and is far from accepting the linguistic diversity of the province.
Published in The Express Tribune, June 2nd, 2014.

Google is to start building its own self-driving cars

Google is to start building its own self-driving cars, rather than modifying vehicles built by other manufacturers.
The car will have a stop-go button but no controls, steering wheel or pedals.
Pictures of the Google vehicle show it looks like a city car with a "friendly" face, designed to make it seem non-threatening and help people accept self-driving technology.
Co-founder Sergey Brin revealed the plans at a conference in California.
"We're really excited about this vehicle - it's something that will allow us to really push the capabilities of self driving technology, and understand the limitations," said Chris Urmson, director of the company's self-driving project.
He added that the cars had the ability to "improve people's lives by transforming mobility".
But some researchers working in this field are investigating potential downsides to driverless car technology.
They believe they could make traffic and urban sprawl worse, as people accept longer commutes as they do not have to drive themselves.
Flexible windscreen The BBC was given access to the Google team to talk about the secret project, and see early renderings of the car.
It looks almost cartoon-like, it has no traditional bonnet at the front, and the wheels are pushed to the corners.
Google car Google says it will initially build 100 prototype vehicles
It will seat two people, propulsion will be electric, and at the start it will be limited to 25mph (40km/h) to help ensure safety.
The most significant thing about the design is that it does not have any controls, apart from a stop/go button.
For early testing, extra controls will be fitted so one of Google's test drivers can take over if there is a problem.
The controls will simply plug in, and Mr Urmson believes that over time, as confidence in the technology grows, they will be removed entirely.
The front end of the vehicle is designed to be safer for pedestrians, with a soft foam-like material where a traditional bumper would be, and a more flexible windscreen, which may help reduce injuries.
The vehicle will use a combination of laser and radar sensors along with camera data to drive autonomously.
It will depend on Google's road maps, built specifically for the programme, and tested on the company's current fleet of vehicles.
Google self-drive car Google says it expects its self-drive cars to be on the road 'within a year'
Ready in a year Google recently announced that its self driving cars had covered 700,000 miles of public roads in autonomous mode, and that they were now tackling the tricky problem of busy city streets.
The company plans to build a fleet of around 200 of the cars in Detroit, with the hope of using them as an autonomous technology test bed.
"We'll see these vehicles on the road within the year," says Mr Urmson.
Advocates claim that autonomous cars have the potential to revolutionise transport, by making roads safer, eliminating crashes, and decreasing congestion and pollution. In the year to June 2013, more than 23,500 people were killed or seriously injured in road traffic accidents in the UK, according to government figures.
Simulation of road  
The view from Google's self-drive car and its computer during tests
Ron Medford, previously the deputy director of the US National Highway Traffic Safety Administration, and now the safety director for the self-driving car team at Google, believes that number could be drastically reduced by removing the chance of driver error.
"I think it has the potential to be the most important safety technology that the auto industry has ever seen," he said.
But Sven Beiker, executive director of the Center for Automotive Research at Stanford, cautions that driverless cars may still require human input in extreme circumstances and that people may forget how to operate their vehicles if they do not do it regularly.
This could be particularly dangerous in an emergency situation where the computer does not know how to react, and asks for input from a human who may not have been paying attention, he warned.
"You will not be able to fiddle around looking for the instruction manual in the glove box that you've never looked at before," he said.
He equates it to people who drive automatics forgetting how to easily drive a car with a manual gearbox.
Listeners in the UK can hear more on the potential of driverless cars on Frontiers on BBC Radio 4 on Wed 4 June.

Sunday 1 June 2014

روشن کمرے میں سونے سے وزن بڑھتا ہے: تحقیق

’اس حوالے سے مزید تحقیق ہونے کی ضرورت ہے کہ اگر کمرہ روشن نہ ہو تو اس سے وزن میں کمی ہو گی یا نہیں‘
ایک تازہ برطانوی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روشن کمرے میں سونے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔
لندن کے کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین ایسے کمرے میں سوئیں جہاں اتنی روشنی ہو کہ پورے کمرے کو دیکھا جا سکے تو ان کی کمر بڑھ جاتی ہے۔
تاہم تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ ابھی اس تحقیق کے حوالے سے وہ لوگوں کو کمرے میں موٹے پردے ڈالنے یا روشنی گُل کر کے سونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔
اس تحقیق کے لیے کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ایک لاکھ تیرہ ہزار خواتین سے سوالات پوچھے۔
اس سروے میں خواتین سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے سونے والے کمرے کی وضاحت کیسے کریں گی
1) اتنی روشنی ہوتی ہے کہ پڑھا جا سکے
2) روشن ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ پڑھا جاسکے
3) اتنا روشن ہوتا ہے کہ کمرے میں دیکھا جاسکے لیکن پڑھا نہیں
4) اتنا روشن ہوتا ہے کہ اپنا ہاتھ دیکھا جاسکتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاسکتا
5) بالکل اندھیرا ہوتا ہے یا پھر آنکھوں پر ماسک پہن کر سوتی ہیں
کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر اینتھنی سورڈلو نے بی بی سی کو بتایا ’اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ رات کو روشن کمرے میں سونے اور وزن میں اضافے کا ربط ہے۔ تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق ہونے کی ضرورت ہے کہ اگر کمرہ روشن نہ ہو تو اس سے وزن میں کمی ہو گی یا نہیں۔‘
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روشنی باڈی کلاک میں خلل پیدا کرتی ہے۔
سرے سلیپ سینٹر کے مطابق اس میں کوئی قباہت نہیں اگر بیڈ روم میں مکمل اندھیرا کر کے سویا جائے۔ ’لوگوں کو اکثر نہیں پتہ چلتا کہ ان کا بیڈروم روشن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنے بیڈ روم کا دوبارہ معائنہ کریں اور دیکھیں کہ مکمل اندھیرے میں سونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘
                                      




BBC  2014 Copyright

گنگنم سٹائل، دو ارب ہِٹس مکمل

’میں اپنی ہی ویڈیو سے مقابلہ کر رہا ہوں‘
جنوبی کوریا کےگلوکار سائی کی ویڈیو’گنگنم سٹائل‘ یوٹیوب کی تاریخ کی پہلی ویڈیو بن گئی ہے جسے دو ارب سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
یہ ویڈیو جولائی 2012 میں منظر عام پر آئی تھی اور اس میں سائی نے ایک ایسا ڈانس متعارف کرایا جو چند ہی ہفتوں میں دنیا کا مقبول ترین ڈانس بن گیا تھا۔
گلوکار جسٹن بیبر کا میوزک ٹریک ’بے بی‘ وہ دوسرا ٹریک ہے جو یوٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے اور اب تک اسے ایک ارب مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
سائی کے دلچسپ انداز کے ہٹ ہوتے ہی اس نغمے کی نقل میں کئی نغمے بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نغمے کے مداحوں میں فلپائن کی جیل میں قیدیوں سے لے کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون تک شامل ہیں۔
گینگنم سٹائیل کی عالمگیر پذیرائی کے بعد سائی کا دوسرا میوزک ٹریک ’جینٹل مین‘ بھی یو ٹیوب پر بہت سراہا گیا ہے اور اب تک اسے تقریباً 70 کروڑ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ’جینٹلمین‘ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے یوٹیوب پر ایک دن میں سب سے زیادہ مرتبہ، یعنی تین کروڑ 80 لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
"ویڈیو کے کچھ مناظر میں چونتیس سالہ سائی کو گلابی رنگ کے جانگیے میں دھوپ کا مزا لیتے ہوئے ہوئے، زیر زمین ٹرین میں مختصر کپڑے پہنے ڈانس کرتی ہوئی لڑکی کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے اور سمندر کے کنارے ورزش کرتی ہوئی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔"
جسٹن بیبر کی ویڈیو ’بے بی‘ کے بعد یوٹیوب پر تیسرے نمبر پر آنے والی ویڈیو ’چارلی بِٹ مائی فنگر‘ ہے جسے سات کروڑ سے زیادہ ہِٹس مل چکی ہیں۔
گذشتہ برس سائی نے اپنا زیادہ وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے شو کرنے میں گذارا جہاں ناظرین نے انھیں گینگم سٹائیل میں براہ راست دیکھا۔
36 سالہ سائی سے جب پوچھا گیا کہ آیا وہ خود گینگنم سٹائیل کا ریکارڈ توڑ سکیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اب مسئلہ یہ ہو چکا ہے کہ میری میوزک ویڈیو خود مجھ سے بھی زیادہ مقبول ہو چکی ہے۔ یعنی اب میں اپنی پہلی ویڈیو سے مقابلہ کر رہا ہوں اور مجھے اپنی ہی ویڈیو کو شکست دینی ہے۔‘
کچھ عرصہ قبل یوٹیوب کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کو اوسطاً سات سے دس ملین افراد روزانہ دیکھتے ہیں۔
ویڈیو میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے ایک خوشحال علاقے گنگنم میں صارفیت یا کنزیومرازم پر طنز کیا گیا ہے۔
’گنگنم سٹائل’ ویڈیو میں گلوکار سائی کچھ اس انداز میں رقص کر رہے ہیں گویا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہیں اور گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھوں میں ہے۔
گذشتہ برس سائی نے اپنا زیادہ وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے شو کرنے میں گزارا
ان کا یہ ڈانس دیکھتے ہی دیکھتے اتنا مشہور ہو گیا کہ ہر جگہ لوگ اس کی نقل کرتے دکھائی دیے۔
ویڈیو کے کچھ مناظر میں چونتیس سالہ سائی کو گلابی رنگ کے جانگیے میں دھوپ کا مزا لیتے ہوئے ہوئے، زیر زمین ٹرین میں مختصر کپڑے پہنے ڈانس کرتی ہوئی لڑکی کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے اور سمندر کے کنارے ورزش کرتی ہوئی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
’گنگنم سٹائل’ کی ویڈیو کو اس سال کا ایم ٹی وی یورپ میوزک اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ اس کے علاوہ یہ نغمہ اٹھائیس ممالک میں موسیقی کے چارٹ میں نمبر ون رہ چکا ہے۔

دس چیزیں جن سے ہم لاعلم تھے

۔ یورپ میں درجہ حرارت بڑھنے کے باعث تتلیوں کا رنگ ہلکا ہوتا جا رہا ہے۔
کلِک مزید جاننے کے لیے (دی ٹائمز)
3۔ویکیپیڈیا میں سینٹ میریز چرچ کے بارے میں معلومات سب سے زیادہ مبہم ہے۔
کلِک مزید جاننے کے لیے (سلیٹ)
4۔ بڑی سمندری لہر سمندری برف میں سے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرسکتی ہے۔
کلِک مزید جاننے کے لیے کلک کریں
5۔ 1970 کی دہائی میں برطانیہ کے پہلے یوروکریٹ نے ’فرنچ فیس ایک‘ (French face-ache) کا لفظ استعمال کیا۔ انہوں نے یہ لفظ اس تاثر کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا تھا جب برسلز میں اجلاس کے دوران پورا دن نہایت تکنیکی فرانسیسی بولنی پڑی۔
کلِک مزید جاننے کے لیے (فنانشل ٹائمز)
کونگو میں کوئلے کی دلدل کا حجم انگلینڈ جتنا ہے
6۔ کونگو میں کوئلے کی دلدل کا حجم انگلینڈ جتنا ہے۔
کلِک مزید جاننے کے لیے کلک کریں
7۔ ہوائی کے دو جزیروں پر جھینگروں نے یہ صلاحیت پیدا کر لی ہے کہ وہ اس وقت آواز نہیں نکال پاتے جب شکاری آس پاس ہو۔
کلِک مزید جاننے کے لیے کلک کریں
8۔ تولوز میں ایئر بس کے ایک کیمپس سے دوسرے جانے کے لیے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت درکار ہوتی ہے۔
کلِک مزید جاننے کے لیے (فنانشل ٹائمز)
9۔سرے میں سپیلتھورن انگلینڈ اور ویلز کا کان کنی کا مرکز ہے۔
کلِک مزید جاننے کے لیے کلک کریں
10۔ مغربی یورپ میں سب سے زیادہ موٹے اور زیادہ وزن والے افراد آئس لینڈ میں ہیں۔
کلِک مزید جاننے کے لیے (دی گارڈیئن


BBC © 2014