بالی وڈ یا لالی وڈ کی فلموں میں
دل چرانا یا دل کے ارمانوں پر ڈاکے پڑنے کی بات عموماً ہوتی ہے مگر امریکہ
میں پولیس محکمے کے سرکاری فیس بک صفحے پر پوسٹ کی گئی ایک مشتبہ مجرم کی
تصویر نے ہزاروں کے دل چرا لیے ہیں۔
پولیس نے 30 سالہ جیریمی ميِكس کو 19 جون کو
گرفتار کر ان کا مگ شاٹ یا چہرے کی تصویر اپنے فیس بک صفحے پر شائع کی تھی
جو ایک معمول کی کارروائی اگر اس تصویر کے نیچے دیکھیں تو اب تک اس پر 24119 کمنٹس دیے جا چکے ہیں جن کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔
ميك کی تصویر پر تبصرے کرنے والی زیادہ تر خواتین ہیں، جو ان کے چہرے اور شکل وشباہت کی تعریف کر رہی ہیں۔
بغیر کسی شک کے وہ سٹوكٹن پولیس محکمہ کے فیس بک صفحے پر سب سے مشہور مشتبہ مجرم بن گئے ہیں۔
سٹكٹن پولیس کا کہنا ہے کہ ميكس کو ایک آپریشن کے تحت پکڑا گیا ہے۔
"میری بیوی ابھی مجھ سے مل کر گئی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ فیس بک پر میرے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کوئی بڑا سرغنہ نہیں ہوں۔"
جیریمی میِکس
پولیس نے ميكس کو علاقے کے سب سے زیادہ متشدد مجرموں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
ایک مقامی ٹی وی چینل کو جیل سے انٹرویو میں جیریمی ميكس نے کہا ہے کہ پولیس نے اس کی کار سے بندوق برآمد کی اور انہیں گرفتار کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میری بیوی ابھی مجھ سے مل کر گئی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ فیس بک پر میرے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کوئی بڑا سرغنہ نہیں ہوں۔‘
فیس بک پر ان کی تصویر پر تبصرے کرنے والی خواتین ان کو ماڈلنگ کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
ایک خاتون ایلی ایبے نے لکھا کہ ’میں بھی اسے گرفتار ہی کر لیتی۔ میں نے آج تک اتنا ہاٹ مجرم نہیں دیکھا‘ جبکہ تانيا ایچ تھامس نے لکھا کہ ’وہ جرم کیوں کر رہا ہے جبکہ وہ ماڈلنگ کرکے کروڑوں کما سکتا ہے۔‘
"وہ جرم کیوں کر رہا ہے جبکہ وہ ماڈلنگ کرکے کروڑوں کما سکتا ہے۔"
تانيا ایچ تھامس
ایک فیس بُک صفحے پر اب تک ایک لاکھ 19 ہزار فین جبکہ دوسرے پر 50 ہزار سے زیادہ فینز ہیں۔
ميكس کو فی الحال سین جوكون کاؤنٹی جیل میں نو لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رکھا گیا ہے۔
مگر فیس بک پر ميكس کے پرستار اس سب متاثر نہیں ہیں۔ امبر گومز نے تنقید کی ہے کہ ’چھ الزام اور نو لاکھ ڈالر کی ضمانت، خواتین پاگل ہو گئی ہیں۔‘
پولیس نے گرفتار کیے گئے دیگر تین لوگوں کے مگ شاٹ بھی فیس بک پر شیئر کیے گئے ہیں جنہیں اب تک قریباً ساڑھے تین سو کمنٹس ملے ہیں۔
No comments:
Post a Comment