Saturday, 27 July 2013
Changing destiny: Asad Umar’s plan for Islamabad
ISLAMABAD: Pakistan Tehreek-e-Insaf leader Asad Umar plans turning Islamabad into the country’s economic hub if elected to parliament.
“Islamabad being the capital should be linked to the global network to make the city an economic hub by diversifying strategies like Bangalore and Dhaka,” said the PTI leader contesting for the NA-48 Islamabad by-elections.
In an interview with The Express Tribune he stated “it’s absolutely critical to devolve power to village councils—once we have a political system in place in Islamabad
For Complete Article click on the link below
Changing destiny: Asad Umar’s plan for Islamabad
رعشے کی بیماری
انسانی دماغ ڈوپامائن نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے، جو پٹھوں اور عضلات کو لچک دار بناتا ہے اور جسمانی حرکات میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم پارکنسنز سے متاثرہ افراد کا دماغ ڈوپامائن پیدا کرنا بند کردیتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے بازوؤں، ہاتھوں اور ٹانگوں میں رعشہ، حرکت میں سست روی، اعصاب میں اکڑاؤ اور توازن کی خرابی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر مرض شدت اختیار کرجائے تو خوراک نگلنے، چلنے پھرنے اور بات کرنے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔ گوکہ یہ مرض کسی بھی شخص
More Details
More Details
چاکلیٹ کھائیں ، بیماریاں بھگائیں
امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چاکلیٹ کھانے سے انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
دانت خراب ہونے اور موٹاپے کے ڈر سے بہت سارے لوگ چاکلیٹ سے دور ہی رہتے ہیں لیکن اب پریشان ہونا چھوڑیے ، طبی ماہرین کے مطابق مہینے میں 3 سے 4 مرتبہ چاکلیٹ کھانے سے انسانی جسم پر مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ چاکلیٹ کینسر اور دل کے مرض کو بھگانے میں انتہائی کا رآمد ہے۔
تحقیق کے مطابق چاکلیٹ کھانے سے انسانی زندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ اگر پریشانی کو دور بھگانا ہو تو بھی چاکلیٹ کا لطف اٹھائیے ، بڑے تو کیا بچوں کے لیے بھی چاکلیٹ بہت فائدہ مند ہے ، صبح سویرے چائے پینے والے افراد اب چائے کافی چھوڑیں ، چاکلیٹ کھائیں اور صحت مند ہوجائیں۔
Indian army mistook planets for Chinese spy drones: Report-----EXPRESS TRIBUNE
EXPRESS TRIBUNE:
NEW DELHI: The Indian army reportedly spent six months watching “Chinese spy drones” violating its air space, only to find out they were actually Jupiter and Venus, BBC News reported on Friday.
Tensions have been high in the disputed Himalayan border area between the two nations in recent years, with India frequently accusing its neighbour of making incursions onto its territory.
According to the Calcutta-based Telegraph, Indian troops had documented 329 sightings of unidentified objects over a lake in the border region between last August and February.
The newspaper quoted military sources as saying the objects violated the Line of Actual Control (LAC) 155 times.
The army called the Indian Institute of Astrophysics to identify the objects. “Our task was to determine whether these unidentified objects were celestial or terrestrial,” astronomer Tushar Prabhu told the paper.
Only once the objects’ movements were noted in relation to the stars were they identified as planets.
! فیس بک ’’لائیک‘‘
کسی سوشل ویب سائٹ، جیسے فیس بُک پر کسی پوسٹ یا اسٹیٹس کو ’’لائیک‘‘ کرنا بڑا معصوم سا فعل ہے۔
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سادہ اور معصوم سا ’’لائیک‘‘ آپ کی شخصیت اور زندگی کی ایسی تفصیلات بھی سامنے لاسکتا ہے جنھیں آپ کسی سے بیان کرنا نہ چاہتے ہوں۔ ہماری زندگی کی ایسی بہت سی حقیقتیں ہوتی ہیں جن پر ہم کم ازکم کھلے عام بات نہیں کرتے جیسے ہماری خلوت کے معاملات، مذہبی اور سیاسی خیالات، ہم کتنے ذہین ہیں، ہم اپنے روزوشب سے کتنے خوش ہیں، ہم سماج میں معیوب سمجھی جانے والی کسی لت میں مبتلا ہیں، وغیرہ وغیرہ، مگر آپ کا لائیک پر ایک ہلکا سا کلک یہ سارے راز کھول سکتا ہے۔
حال ہی میں کیے جانے والے ایک تحقیقی مطالعے مطابق صرف کسی شخص کے فیس بک پر کیے جانے والے ’’لائیکس‘‘ کا تجزیہ کرکے اس یوزر کی حساس نوعیت کی خصوصیات اور اوصاف کے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتایا جاسکتا ہے۔ کیمبرج یونی ورسٹی اور مائیکروسافٹ کے محققین کی مشترکہ تحقیق بتاتی ہے کہ فیس بک پر کیے جانے والے ’’لائیک‘‘ کا مخصوص رجحان جنسی کارکردگی، زندگی مطمئن ہونے، ذہانت، جذباتی توازن، مذہب، منشیات کے استعمال، تعلقات کی نوعیت، عمر، جنس، نسل، سیاسی نظریات سمیت لائیک کرنے والے یوزر کی شخصیت کے دیگر بہت سے پہلو سامنے لاسکتا ہے۔ یہ سب جاننے کے لیے لائیکس کی بڑی تعداد ضروری نہیں، بسااوقات صرف ایک لائیک آپ کی شخصیت پر سے پردے ہٹانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق خاص اشیاء اور کسی مخصوص نوعیت کی پوسٹ پر کیا جانے والا لائیک آپ کی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل شخصی اوصاف اور لائیک کی گئی اشیاء وغیرہ سے انھیں پہچاننے کے لیے دی گئی طویل فہرست میں شام؛ صرف چند خصوصیات اور انھیں آشکار کرتی لائیک کی جانے والی اشیاء پیش ہیں:
اعلیٰ درجے کی ذہانت: کرلی فرائز (فرنچ فرائز کی ایک قسم)، سائنس، طوفان۔
کم درجے کی ذہانت: Harley Davidson (ایک امریکی موٹرسائیکل برانڈ)، Lady Antebellum(ایک امریکی پوپ میوزک گروپ)، ’’مجھے ایک ماں ہونے سے محبت ہے‘‘ جیسی پوسٹس۔
زندگی سے مطمئن ہونا: پیراکی، Pride and Prejudice (فلم) اور انڈیانا جونز (فلم)
زندگی سے غیرمطمئن: آئی پوڈ، فیس بک کا Quote Portal ۔
جذباتی طور پر مستحکم: بزنس ایڈمنسٹریشن، اسکائی ڈائیونگ، ماؤنٹین بائیکنگ۔
اسی طرح آپ کا لائیک آپ کے رویے اور رجحانات کا پتا دیتے ہوئے آپ کے ان رازوں سے پردہ اٹھا دیتا ہے جنھیں آپ سب سے چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔
مذہب کے خادموں کی خدمت
طلعت حسین جمعـء 26 جولائ
میرا خیال ہے پاکستان میں سب کچھ بِکتا ہے۔ اب یقین ہو گیا ہے۔ رحمتوںاور فضیلتوں کے اس بابرکت مہینہ میں مذہب کے نام پر جو منڈی لگی ہوئی ہے، اُس نے فروخت کے اس نظام کے گزشتہ تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ سحر اور افطار اور اُس کے درمیان کے گھنٹوں میں ہمیں کیا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔کیسے کیسے لوگ کیسے کیسے روپ دھار کر محفل سجائے بیٹھے ہو تے ہیں۔ کہنے کو رمضان کریم کی کرامات کا ورد کرتے ہیں۔ اصل میں چھابڑی فروش ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ بہروپیے اسلامی تاریخ پر لیکچر دے رہے ہیں۔ بے علم قرآن پاک کے آفاقی پیغام پر وعظ د ے رہے ہیں۔ جو کل تک فیشن کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اب ڈوپٹے،چادریں اور ٹوپیاں پہن کر نیکوکار بنے بیٹھے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایسے ٹھسے کے ساتھ ہو رہا ہے کہ جیسے اسلام کی بیش قیمت خدمت سرانجام دی جا رہی ہو۔
نام نہاد رہنما شوبز کی اداکاروں کے ساتھ سحری مناتے ہوئے ذاتی معاملات زیر بحث لاتے ہیں۔ میک اپ کی دبیز تہوں کے ساتھ انٹرویو دینے والے مہمان ٹھٹھا کرتے ہوئے اول فول بولتے اور اُس کو رمضان کے نام کرتے ہیں۔ ہر طرف مذہب کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تحقیر اور ان کے تمسخر کا ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا بھی چلا اُٹھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کے ساتھ کیا ٹھٹھول ہو رہا ہے۔ مگر بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کی توجہ اس ڈرامہ بازی میں مزید تیزی لائے گی کیونکہ یہ سب کچھ توجہ حاصل کرنے کے لیے ہی تو کیا جا رہا ہے۔ بے ہودگی ویسے بھی نظروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے اور اسے اگر مذہب کے تیل میں تل دیا جائے تو اِس سے کرار ے پکوڑ ے اور کیا بنیں گے۔ افطار سے پہلے جب خداوند تعالی کے حکم کے مطابق جسم کی زکوۃ روحانی پاکیزگی میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، اشیاء کا لنڈا بازار کھول دیا جاتا ہے۔
اسلامی تاریخ کے بزرگ ترین نام معلومات سے نا آشنا مگر معصوم شرکاء کے سامنے بدتمیزی کے ساتھ اچھالے جاتے ہیں۔ عجلت میں لیے گئے جواب مقدس شخصیات کے مختلف پہلووں، اُن کے کارناموں حتیٰ کہ اُن کی ولدیت اور قریبی رشتہ داروں کے تمام حوالوں کا تمسخر بنا د یئے جا تے ہیں۔ اس تُکے بازی کو ڈھٹائی کے ساتھ عیار آنکھیں اور چرب زبان بہترین سلام کے طور پر پیش کرتی ہیں۔کبھی عدت میں موجود بیوہ کو کیمروں کے سامنے لا کر پیسوں میں تولا جاتا ہے۔ کبھی انسانوں کے بچے تھیٹر کے ٹکٹ کی طرح بانٹے جاتے ہیں۔ کبھی تالیوں کی ڈگڈگی پر قلابازیاں لگاتے ہیں۔ اور چیزیں بیچتے ہوئے یک دم آیت کریمہ کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے، ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان کس ملک میں اس طرح رمضان مناتے ہیں۔ ہماری اپنی ثقافت میں ایسی مثالیں کہا ں ملتی ہیں۔
پاکستان کے کس صوبہ، کس ضلع یا کس محلے یا کس گھر میں اِس رکن اسلام کی خاطر مدارت ایسے کی جاتی ہے۔ کو ئی ایک مثال نہیں ملے گی۔ ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور ہندوستان میں موجود مسلمان کبھی ٹیلی ویژن پر ایسی دھما چوکڑی کو رمضان المبارک کے ساتھ جوڑتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ مکمل طور پر مغرب زدہ معاشروں میں موجود مسلمان خاندان بھی آپ کو اِن آلائشوں سے پاک انداز سے عبادت کرتے ہوئے ملیں گے۔ اِن تمام معاشروں میں میڈیا بھی موجود ہے۔ ذرایع ابلاغ کا غلط استعمال کرنے والے بھی ہیں۔ اور ان میں نظاروں کو دیکھنے والی آنکھیں (جن کو ہم ناظرین کہتے ہیں) بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ مسخرہ پن آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اپنے تہواروں کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ آفاقی مذاہب یا انسان کے وہ نظریات جو تہذیبوں کے روح رواں ہیں، ٹھگوں کے ہاتھوں بازاروں میں نہیں بکوائی جاتیں۔
مگر یہ حقائق رمضان المبارک میں میڈیا پر پھیلے ہوئے اِس طوفان بدتمیزی میں گم ہو گئے ہیں۔ کیونکہ آپ کو جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، اُس کا اسلام یا روح پروری سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ڈھکو سلا ایک مہینے میں اشتہار کے ذریعے پیسے بٹورنے کا وہ طریقہ ہے جس کے استعمال کا موقع سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ سستی شہرت کے انجن کے پیچھے دیوانے پن کی اِن تمام بوگیوں میں وہ بونے بیٹھے ہوئے ہیں جن کے قول و فعل میں اُتنا تضاد ہے جتنا مذہب کے نام پر کیے جانے والے اِس تماشے کا مذہب کی اساس میں۔ یہ مال گاڑی تیس دن اور راتیں اِس ملک کے شہریوں کو ایک ایسی سیر کرا رہی ہے جس کے آخر میں نیکیاں تو زائل ہوں گی ہی مگر گناہوں کے انبار میں اضافہ ہو گا۔ صرف مال بنانے والے خوش ہوں گے یا مال بیچنے والے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی نظر کے اس دھوکے کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے۔
میرے پاس جس قسم کا رد عمل آ رہا ہے اُس کو اگر کسی سرو ے میں تبدیل کر دیا جائے تو اِس ملک کی بھاری اکثریت اِس ناٹک کو نہیں دیکھنا چاہتی، مگر چونکہ ناٹک رچانے والے متنفر تماش بینوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں لہذا یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ مستقبل میں بھی مجھے اِس روایت میں کمی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ جس کی ایک وجہ دوسر ے شعبوں میں ہونے والی اسی قسم کی شعبدہ بازی ہے۔ ہم نے حادثاتی طور پر یا اپنی نا لائقی کی وجہ سے ہر شعبے میں دو نمبر مال کو پھیلنے کے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں۔ نوٹ کے زور پر کھوٹے سیاستدان بطور لیڈران خود پر مسلط کیے رکھے ہیں۔ نیم حکیم قسم کے کرداروں کو سیاسی جراحی کے لیے پالے رکھا ہے۔
حتیٰ کہ سائنس ٹیکنالوجی اور انسانی خدمات جیسے شعبہ ہائے زندگی میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک چکرباز کو آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ میڈیا کی دنیا کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ یہاں پر بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو قومی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ مگر چونکہ ٹیلی ویژن اسکرین کے ذریعے پہنچائے جانے والا پیغام ہر کونے میں پھیلتا ہے لہٰذا مذہبی تہواروں کی حد تک خطرناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ آنے والی نسلیں انھیں کرداروں کو اپنا مسیحا جانیں گی اور انھیں کا انداز اپنائیں گی۔ اگر حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب مذہب کے فروخت کار کسی روز اپنی شیروانیوں اور زیب تن کیے ہوئے لباس کے دوسر ے حصوں کو لائیو پروگراموں میں نیلام کر کے بانٹ رہے ہوں۔ اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہوں کہ ان کی یہ قربانی اسلام کی ایک عظیم خدمت ہے جس پر قوم کو فخر ہونا چاہیے۔
Murtaza Razvi’s Book " Pottho's world"
Available at Liberty Books for Rs591.
The late journalist Murtaza Razvi’s posthumously published novel Pittho’s World is a confusingly interesting book with a misleading title. It opens with a lie: all characters and incidents are products of the author’s imagination but it also appears to be heavily autobiographical.
The prime narrator of the story, who calls himself by a rather ostentatious name, Sheikho, routinely tells his lover Rani stories mostly about his dead relatives — primarily to cope with insomnia which both of them seem to be suffering from.
But many times his stories fail to have the desired impact on his rebellious lover who is a cynic, feminist and atheist of sorts as evidenced by her defiance of convention. She lives with the narrator under the vague threat of legal punishment. Under the post-1980 laws cohabitation and disbelief in God are regarded as fornication and blasphemy.
Whether Rani likes her lover’s stories or not, they will engage the reader as long as the writer’s strong political self, his liberal idealist, is kept at bay. This persona hovers like a specter throughout the novel. And it gets its chance to hijack the narrative when Sheikho’s lover, exercising her free will as a free woman, temporarily leaves him.
This is the point where the novel turns into a political commentary drawn from the stock, ready-made liberal-Marxist perspective. It doesn’t help that the author’s concept of the reader also skews his style. Keeping a foreign audience in mind, he goes into explanatory details which are superfluous for the local readers and which dilute the impact of the individual stories, some of which are good and intelligent, if not a great, pieces of fiction.
In spite of the occasional partiality of the narrative, the novel does at places impress with its simple correctness of expression and intelligently drafted character sketches — verbal portraits which at times appear to have been drawn simultaneously from the worlds of Gabriel García Márquez and Ratan Nath Sarshar.
At their best in the Bia and Dr D stories, Razvi’s characters masterfully demonstrate the irony and dark humour of the forces of fate. Like One Hundred Years of Solitude, Pittho’s World also works through the theme of recurring family traits and destinies through generations.
Razvi also successfully applied the method brought to perfection by Yusufi in Aab-e-Gum, a technique which allows the writer to subtly reveal some of his characters through hints scattered throughout the work.
But the development of these promising qualities in what would have been a budding writer is now a matter of speculation. We have been left with his first and final book of fiction, which, I hope, will be read even as it produces a mixture of praise and condemnation in its wake.
Published in The Express Tribune, Sunday Magazine, July 21st, 2013.
Friday, 26 July 2013
کیا ملالہ ملالہ لگا رکھا ہے؟
وسعت اللہ خان
جس طرح ٹھوس ایک خاص درجہِ حرارت پر مائع اور پھر مائع ایک خاص درجہِ حرارت پر گیس میں تبدیل ہوجاتا ہے، اسی طرح جب کسی شخص کو کئی برس سے لگاتار اپنے متعلق اہلِ محلہ سے بس برائیاں سننے کو ملیں تو وہ خود احتسابی پر غور کرنے کے بجائے کچھ عرصے توغصے میں کھولتا رہتا ہے۔چند ماہ بعد یہ غصہ جھنجھلاہٹ میں بدل جاتا ہے اور رفتہ رفتہ جھنجھلاہٹ بے حسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اس کے بعد اگر کوئی اپنا یا پرایا کسی بات یا خوبی کو سراہے بھی تو لگتا ہے کہ سراہنے والا طنز فرما رہا ہے۔چنانچہ تعریف سن کر بھی ممدوح کو کاٹ کھانے کو جی چاہتا ہے۔بالکل اسی طرح جب ایک مسلسل محروم شخص کو کوئی تحفہ اچانک ملے تو وہ یہ سوچ کر ڈر جاتا ہے کہ اس نوازش کے پیچھے بھی کوئی چال نہ ہو۔
یہ کیفیت کسی بھی ایسے فرد ، سماج یا قوم پر طاری ہو سکتی ہے جنھیں ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ہو نا ہو ہم دیدہ و نادیدہ قوتوں کے مسلسل محاصرے میں ہیں اور وہ ہماری تہذیب ، معیشت ، جغرافیے اور عقائد کے درپے ہے۔ اور اگر ہم سیدھے سیدھے زہر سے نہ مرے تو پھر ہمیں میٹھے میں چھپا کرزہر دیا جائے گا۔لہذا خبردار کبھی کسی پر یقین نہ کرنا اور کسی بھی مہربانی کو شبہے کے عدسے سے گذارے بغیر قبول نہ کرنا۔ اس مسلسل کیفیت کے سبب فرد ہو یا قوم۔ دونوں کی خود اعتمادی اس طرح مجروح ہوتی ہے کہ اس کی واپسی نسلوں تک نہیں ہوپاتی۔ایسے لوگ خود کو بیچارگی کی چادر میں لپیٹ کر تسکین پاتے ہیں۔دکھڑوں کے نوالوں اور آہوں کے شربت پے گذارہ کرتے ہیں اور اگر کوئی انھیں اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش بھی کرے تو پہلی گالی اس رضاکار کو ہی پڑتی ہے۔
اب ملالہ کو ہی دیکھ لیں۔سر پر گولی لگنے سے اقوامِ متحدہ کی چلڈرن اسمبلی سے خطاب تک بہت سوں کو یقین ہی نہیں آرہا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ملالہ سے مہربانی فی سبیل اللہ کیسے ہو سکتی ہے۔اس کے پیچھے یقیناً کوئی بہت بڑا ڈرامہ ہے۔اور پھر کڑیوں سے کڑیاں یوں ملائی جاتی ہیں۔
کیا ثبوت ہے کہ ملالہ کو گولی مارنے والا کوئی طالب ہی تھا۔ملالہ فیملی کی کسی سے خاندانی دشمنی بھی تو ہوسکتی ہے۔ٹھیک ہے طالبان کی جانب سے کسی نے اسے گولی مارنے کی ذمے داری قبول کرلی لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ جس نے کسی گمنام مقام سے فون کرکے ذمے داری قبول کی وہ کوئی طالبان ترجمان ہی تھا۔
کیا کہا ؟ ملالہ کو سر کے بائیں حصے میں گولی لگی تھی۔ہاہا ہاہا۔۔۔اور اسے یہ بھی ہوش رہا کہ پشاور کے اسپتال سے ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے تک گلابی کپڑے پہننے ہیں اور پنڈی میں ہیلی کاپٹر سے اترتے ہی لباس کا رنگ سبز کردینا ہے اور سر پے بندھی پٹی پر خون کا دھبہ بھی بائیں سے دائیں کھسک جائے گا۔اور کمبائنڈ ملٹری اسپتال پنڈی والے تو کہہ رہے تھے کہ گولی سر کے اندر گہری چلی گئی ہے اور اگر وہ بچ بھی گئی تو شائد یادداشت واپس نا آسکے۔تو پھر یہ کیا ہوا کہ پلک جھپکتے میں ابوظہبی کے حکمران کی ایر ایمبولینس بھی آ گئی اور ملالہ سفر کے قابل بھی ہوگئی اور اسے برمنگھم پہنچا دیا گیا اور صرف تین ہفتے کے علاج کے بعد نہ صرف ہوش میں آگئی بلکہ اسکول بھی جانے لگی۔اور پھر تین ماہ بعد کبھی اس ملک جارہی ہے تو کبھی وہ انعام وصول کررہی ہے۔تو کبھی فلاں بادشاہ سے داد لے رہی ہے توکبھی اپنے نام پر قائم ایجوکیشنل فنڈ کا افتتاح کررہی ہے۔
اور ثبوت چاہتے ہو تو پھر یہ لو۔
میڈونا جیسی بے باک گلوکارہ جو اپنے باپ کے مرنے پے نہ روئی اس کو ملالہ اچانک اتنی اچھی لگ گئی کہ اس نے اپنی برہنہ کمر پر ملالہ کھدوا لیا اور اس کے نام کا گانا بھی کمپوز کرلیا۔کیا اب بھی امریکی سی آئی اے کی طرف آپ کا کوئی دھیان نہیں گیا۔اور یہ ملالہ اور ان کے والد گولی لگنے سے پہلے اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں کن کن لوگوں سے مل رہے تھے۔ کیا اب بھی شک ہے کہ گولی مارنے کے ڈرامے کو وہاں آخری شکل نہیں دی جارہی تھی۔
اچھا تو آپ کہتے ہیں کہ کوئی تو بات ہوگی ملالہ کی قربانی میں کہ سابق برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن ملالہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے لیے متحرک ہوگئے۔کیا وہ اتنے ویلے آدمی ہیں کہ انھیں اپنے لیے دنیا میں سب سے اہم کام یہی نظر آیا۔انھیں کہیں بھی فی لیکچر پرویز مشرف کی طرح کم ازکم ایک لاکھ ڈالر مل سکتے تھے۔مگر گورڈن براؤن پوری دنیا میں ملالہ ٹرسٹ کے لیے پیسے جمع کرتے پھر رہے ہیں۔واہ جی واہ۔کہئے کہئے کہ مسٹر براؤن یہ کام دکھی انسانیت کے لیے کررہے ہیں اور اس کے پیچھے ان کا کوئی اور مفاد نہیں۔ہے نا۔۔۔۔۔۔
ہاں تو ملالہ نے نازیوں کے ڈر سے ایمسٹرڈم کے ایک زیرِ زمین کمرے میں چھپی گیارہ سالہ یہودی بچی این فرینک کی طرح طالبان کے سوات پر قبضے کے زمانے میں ڈائریاں لکھی تھیں۔کیا ثبوت ہے کہ دس گیارہ سال کی ایک بچی اتنی بالغانہ نثر لکھ سکتی ہے۔کیا ثبوت ہے کہ بی بی سی نے کسی اور سے یہ ڈائریاں لکھوا کے ملالہ کے نام سے دو ہزار آٹھ میں نہیں چھاپی تھیں۔۔تو جناب یہ سازش تب پروان چڑھنی شروع ہوئی تھی۔تب سے ملالہ کے کردار کو اونچا کرنے کی کوشش شروع ہوئی تھی اور پھر جب گولی لگی تب تک دنیا یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار ہوچکی تھی کہ ملالہ کوئی سپر گرل ہے۔
ہاں ہاں ہمیں معلوم ہے کہ ٹائم اور نیوزویک کے کئی سرورق ملالہ کی بھولی بھالی تصویر چھاپ چکے ہیں۔اور اسے سال کے سو طاقتور عالمی لوگوں کی فہرست میں بھی جگہ دی جاچکی ہے۔تو کیا آپ کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ امریکی میڈیا کو کون سا نسلی گروہ کنٹرول کرتا ہے اور اس کا ایجنڈہ کس قدر پاکستان اور اسلام دوست ہے۔اور پلیز ہمیں یہ بتا کر ملالہ کے رعب میں لینے کی کوشش نہ کریں کہ دنیا بھر کے دو ملین بچوں نے اپنے دستخطوں سے ملالہ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔اور یہ کہ تیس ممالک کے تیس نوعمر گلوکاروں نے ملالہ کی سولہویں سالگرہ پر اقوامِ متحدہ کی فرمائش پر ’’ میں بھی ملالہ ہوں ’’ کے عنوان سے ایک گیت تیار کیا ہے جو اسوقت سوسے زائد ممالک کے اسکولی بچوں میں ہاٹ چاکلیٹ کی طرح مقبول ہے۔
اچھا تو آپ اس خبر کے رعب میں آگئے کہ ملالہ کے یومِ پیدائش کو اقوامِ متحدہ نے ملالہ ڈے قرار دیا ہے اور آئندہ ہر سال اس دن دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا جائے گا۔اور نیلسن منڈیلا کے بعد ملالہ دوسری شخصیت ہے جس کی سالگرہ اقوامِ متحدہ نے اپنا لی ہے۔یہ اقوامِ متحدہ کون ہے۔وہی نا جس کا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں ہے۔وہی نیویارک نہ جہاں سب سے زیادہ امریکی یہودی رہتے ہیں۔وہی اقوامِ متحدہ نہ جس کا پچیس فیصد بجٹ امریکا سے آتا ہے اور پھر امریکا اس سے جب چاہتا ہے مجرا کراتا ہے۔
اگر ملالہ کے اقوامِ متحدہ سے خطاب کی واقعی کوئی اہمیت ہوتی تو کیا پاکستانی میڈیا اسے سر پے نہ اٹھا لیتا ؟ ہاں بی بی سی ، سی این این اور دور درشن نے یہ تقریر براہِ راست دکھائی کیونکہ انھیں تو دکھانی ہی تھی۔لیکن سلام ہے پاکستانی میڈیا پرجس نے قومی حمیت و غیرت کا بھرپور ثبوت دیا اور ملالہ کی صرف سترہ منٹ کی تقریر براہِ راست نشر کرنے سے گریز کیا۔( کاش ملالہ کا نام الطاف حسین یا طاہر القادری ہوتا )۔اور سلام ہے سرکاری ٹی وی کو جس کے صرف انگریزی چینل نے ملالہ کی انگریزی تقریر براہِ راست دکھائی اور سرکاری چینل کی اردو نشریات میں اس کو صرف خبر کے طور پر نشر کیا۔سلام ہے اس نجی چینل کو بھی کہ جس نے ملالہ کی مختصر تقریر کی ایک جھلک دکھا کر خصوصی رمضان ٹرانسمیشن وہیں سے جوڑ دی جہاں سے منقطع کی تھی اور سلام ہے اردو اخبارات کو جنھوں نے ملالہ کی فضول سی تقریر کو شہہ سرخی بنانے سے گریز کرکے اعلیٰ پیشہ ورانہ صحافتی روایات کی آبرو رکھ لی۔ایک آدھ انگریزی اخبار نے ضرور اسے شہہ سرخی بنایا لیکن انھیں کتنے لوگ پڑھتے ہیں ؟
اگر ملالہ اتنی ہی توپ چیز ہوتی تو دنیا کے سو ممالک کے بچوں کی یو این اسمبلی میں پاکستانی بچوں کا وفد بھی ہوتا۔ پاکستان کے خارجہ امور کے دو وفاقی مشیروں میں سے کم ازکم ایک تو ضرور ہی جاتا۔لیکن چونکہ سیاستدانوں کا قوم کی نبض پر ہاتھ رہتا ہے لہذا وزیرِ اعظم نواز شریف یا ان کی کابینہ کی جانب سے ملالہ کی سالگرہ پر نیک تمناؤں کا کوئی پیغام نہیں گیا۔صدر زرداری نے ضرور ایک تہنیتی پیغام بھیجا مگر زرداری صاحب کے بارے میں تو آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں۔۔۔۔۔ معلوم نہیں ملالہ کے آبائی سوات میں اس کی سالگرہ پر کوئی کیک کٹا یا پشاور کے چیف منسٹر ہاؤس میں خیبر پختون خوا کی اس بیٹی کو یاد رکھا گیا یا نہیں۔ البتہ جے پور کے ایک اسکول میں بچوں نے ضرور ملالہ کی سالگرہ منائی۔کیا اب بھی ثبوت چاہئیے کہ ملالہ کن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔۔۔
ہم نے تو ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل انعام کو نہیں مانا تو پھر مغرب کی ڈارلنگ ملالہ کس کھیت کی مولی ہے۔۔۔۔بھلا جو شخص مسلمانوں جیسا نام رکھ کے دھوکہ دے سکتا ہو۔اس کی سائنسی تحقیق کا بھی کیا اعتبار۔۔۔ سب سازش ہے۔۔۔سب ڈرامہ ہے۔۔۔سب پاکستان کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے۔۔۔اب زہر بھی تعریف اور انعامات کی شکل میں دیا جارہا ہے۔لیکن خبردار۔۔ہم زندہ قوم ہیں۔اپنا اچھا برا بخوبی جانتے ہیں۔دشمن کسی غلط فہمی میں نا رہے۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)