Friday 26 July 2013

ہم عزت نہیں دیں گے جاوید چوہدری جمعرات 25 جولائ 2013

                                                         

                                                                                                      

چوہدری محمد سرور کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قصبے پیر محل سے تھا‘ یہ آج سے 35سال قبل بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے برطانیہ چلے گئے‘ یہ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو آئے اور مزدوری شروع کر دی‘ یہ ٹرکوں اور بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے‘ یہ محنتی شخص ہیں‘ ان کا فوکس کلیئر تھا چنانچہ ان پر ترقی کے دروازے کھل گئے‘ یہ کیش اینڈ کیری کے مالک بن گئے‘ یہ اس وقت اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے خوش حال شہریوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ یہ 1990ء کے دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے‘ لیبر پارٹی جوائن کی‘ 1997ء میں پہلی بار گلاسکو کے علاقے گوان سے ہائوس آف کامنز کے رکن بنے اور اس کے بعد 2001ء اور2005ء میں دوسری اور تیسری بار ایم پی منتخب ہوگئے.
ان کا حلقہ خالصتاً گوروں پر مشتمل ہے‘ ان کے نوے فیصد ووٹروں کا تعلق گوری قوم سے ہے لیکن یہ لوگ 12 برسوں تک ایک ایشیائی باشندے کو ووٹ دیتے رہے ‘ یہ چوہدری سرور کی کامیابی کی دلیل تھی‘ چوہدری سرور نے برطانیہ شفٹ ہونے کے بعد پاکستان سے رابطہ رکھا‘ یہ اپنے آبائی علاقے میں فلاح و بہبود کے بے شمار منصوبے چلا رہے ہیں‘ یہ پاکستان کی تقریباً تمام حکومتوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہے‘ یہ میاں نواز شریف کے مشیر بھی تھے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ان کا رابطہ تھا‘ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی ملتے رہے اور ان کا چوہدری صاحبان سے بھی تعلق تھا‘ یہ ان تمام سیاستدانوں اور حکومتوں کو مشورے بھی دیتے رہے اور ان کی مدد بھی کرتے رہے‘ یہ تواتر کے ساتھ پاکستان آتے تھے اور اکثر اوقات اپنے ساتھ برطانوی ارکان پارلیمنٹ بھی لاتے تھے‘ میری ان سے صرف دو ملاقاتیں ہوئیں‘ میں 1999ء میں اسکاٹ لینڈ گیا اور گلاسکو میں ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کی.
ان سے دوسری ملاقات 2007ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہوئی ‘ اس کے بعد ان سے رابطہ ٹوٹ گیا‘ آج کل اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں میاں نواز شریف نے چوہدری سرور کو گورنر پنجاب بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ چوہدری صاحب کو گرین سگنل بھی دے دیا گیا جب کہ چوہدری صاحب نے اس عہدے کے لیے اپنی برطانوی شہریت چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیا ‘ میرے چند دوست میاں نواز شریف کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے‘ ان میں جناب عطاء الحق قاسمی صاحب بھی شامل ہیں‘ قاسمی صاحب میرے استاد بھی ہیں اور پیر بھی‘ میں زندگی میں سیکڑوں ہزاروں لوگوں سے ملا ہوں لیکن مجھے ان میں قاسمی صاحب جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں ملا‘امیر تیمور اپنے ایک استاد کے بارے میں کہتا تھا‘ مجھ سے اگر میری پوری سلطنت بھی چھن جائے تو بھی میرے لیے یہ کافی ہیں کیونکہ مجھے جتنی خوشی ان کے قرب میں ملتی ہے اتنی یہ ساری سلطنت نہیں دیتی‘ قاسمی صاحب بھی ایک ایسے ہی انسان ہیں‘ آپ اگر ان کے حلقے میں شامل ہیں تو پھر آپ کو خوشی کے لیے کسی دوسرے انسان کی ضرورت نہیں رہتی‘ قاسمی صاحب بھی میاں صاحب کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں لیکن میں قاسمی صاحب سے تمام تر عقیدت کے باوجود اس فیصلے کو سراہتا ہوں۔
چوہدری سرور جیسے لوگ دوسرے ملکوں کے شہری ہونے کے باوجود دل سے پاکستانی ہیں‘ برطانیہ جیسے ملکوں کی شہریت چھوڑنا‘ وہاں اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ دینا اور برطانیہ جیسے ملکوں کی سیاست چھوڑ کر ایک ایسے ملک میں آ جانا جس میں آپ کو جوانی میں روزگار‘ عزت اور ترقی کے مواقع نہ ملے ہوں اور جس میں ہر شخص آپ کی واپسی کو مشکوک نظروں سے بھی دیکھتا ہو اور آپ کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دینے کے بہانے بھی تلاش کرتا ہو اور جس میں آپ کے اپنے بھائی آپ کو تسلیم نہ کرتے ہوں‘ کتنا مشکل فیصلہ ہے‘ یہ اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس عمل سے گزر رہا ہو‘ چوہدری سرور جیسے لوگ حقیقتاً قابل عزت ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محنت کر کے ان معاشروں میں اپنا مقام بنایا جن میں آج بھی ایشیائی باشندوں کو دل سے قبول نہیں کیا جاتا‘ جن میں لوگ آپ کو آپ کے منہ پر پاکی یا بلیکی کہتے ہیں‘ یہ لوگ اس لیے بھی قابل عزت ہیں کہ یہ محنت اور ایمانداری سے اوپر آئے اور انھوں نے کامیابی کے بعد بھی اپنے علاقے‘ رشتے داروں‘ دوستوں اور ملک کو یاد رکھا‘ یہ لوگ اس لیے بھی قابل عزت ہیں کہ یہ محنت جدید ترین ملکوں میں کرتے ہیں۔
روپیہ پیسہ وہاں کماتے ہیں مگر اپنی رقم کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک بھجواتے ہیں‘ آج بھی ہمارے زرمبادلہ کا بڑا حصہ تارکین وطن کی رقوم ہیں‘ یہ لوگ اگر آج یہ رقم بھجوانا بند کر دیں تو ہماری مالی مشکلات میں اضافہ ہو جائے اور یہ لوگ اس لیے بھی قابل عزت ہیں کہ یہ امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں ترقی کی مثال بنے‘ آپ چوہدری سرور کی طرح بیسٹ وے کے مالک سر انور پرویز کی مثال لیں‘ یہ میٹرک پاس ہیں‘ یہ برطانیہ میں بس ڈرائیور بھرتی ہوئے مگر آج یہ برطانیہ کی دوسری بڑی کیش اینڈ کیری کے مالک ہیں‘ یہ پاکستان میں بھی بیسٹ وے سیمنٹ اور یو بی ایل کے مالک ہیں‘ ملکہ برطانیہ نے انھیں سر کا خطاب دیا‘یہ بڑی اچیومنٹ ہے ‘ اس اچیومنٹ کے بعدیہ اگر سائوتھ افریقہ‘ مراکش‘ ملائشیا یا ترکی میں سرمایہ کاری کرتے تو شاید ان کا سرمایہ زیادہ محفوظ رہتا اور یہ منافع بھی زیادہ کماتے مگر یہ پاکستان آئے اور انھوں نے یہاں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی‘ یہ پاکستان میں فائونڈیشن بھی چلا رہے ہیں‘ یہ فائونڈیشن ہزاروں طالب علموں اور بیماروں کے لیے کام کر رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے اگر برطانیہ انور پرویز کی کامیابی کو تسلیم کر رہا ہے‘ یہ ان کے لیے شاہی محل کے دروازے بھی کھول دیتا ہے اورسر کا خطاب بھی دیتا ہے تو ہم انھیں عزت کیوں نہیں دیتے‘ ہم انھیں کوئی ایسا عہدہ پیش کیوں نہیں کرتے جس پر بیٹھ کر یہ ملک کی رہنمائی بھی کریںاور ملک کا امیج بھی بہتر بنائیں‘ امریکا کے چوہدری رشید‘ کامران خان اور شاہد خان بھی ایسے ہی پاکستانی ہیں‘ چوہدری رشید شکاگو میں کاروبار کرتے ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں‘ کامران خان بھی کاروباری شخصیت ہیں جب کہ شاہد خان فوربس کی فہرست میں شامل ہونے والے پہلے امریکی پاکستانی ہیں‘ چوہدری رشید اور کامران خان امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن کے ذاتی دوست بھی ہیں اور یہ  بل کلنٹن کو2000ء میں اس وقت پاکستان لائے جب امریکی صدر نے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھارت سے واپس جا رہا تھا مگر یہ لوگ بل کلنٹن کو پاکستان لے کر آئے اور امریکی صدر نے پاکستانی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ’’ میں نے اس وقت جو ٹائی پہن رکھی ہے۔
یہ میرے ان پاکستانی دوستوں نے گفٹ کی تھی‘‘ شاہد خان کی کامیابی نے بھی پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ یہ گاڑیوں کے بمپر بنا رہے ہیں اور دنیا کی بڑی کار ساز اورٹرک ساز کمپنیاں ان کی خریدار ہیں‘ یہ اس قدر کامیاب بزنس مین ہیں کہ فوربس جیسے میگزین اور امریکی حکومت ان کی کامیابی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی‘ اگر بین الاقوامی میگزین اور حکومتیں ان لوگوں کو عزت دے رہی ہیں‘ یہ ان کی اچیومنٹس کا اعتراف کر رہی ہیں تو ہم اپنے ان لوگوںکو عزت کیوں نہیں دیتے جو اس ملک میں پیدا ہوئے‘ جو دھکے کھاتے ہوئے دوسری دنیائوں میں گئے اور وہاں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی کامیابی اور ترقی کے چشمے جاری کر دیے۔
آپ برطانیہ سے پیرس چلے جائیں‘ وہاں سے سعودی عرب اور دوبئی نکل جائیں اور وہاں سے جرمنی‘ اسپین‘ اٹلی‘ جاپان اور امریکا چلے جائیں آپ کو چوہدری سرور جیسے درجنوں ایسے پاکستانی ملیں گے جو ہمارے لیے اعزاز ہیں اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو کر خود کو پاکستانی کہلاتے ہوئے فخر محسوس کر تے ہیں‘ ہم نے کبھی سوچا انور پروز‘ چوہدری سرور‘ کامران خان‘ چوہدری رشید اور شاہد خان جیسے لوگ صرف دوسرے ملکوں میں کیوں ترقی کرتے ہیں‘ یہ پاکستان میں اس بلندی کو کیوں نہیں چھو پاتے؟ اس کی وجہ ہمارے رویئے ہیں‘ ہم لوگ ترقی کرنے والوں کے خلاف ہیں‘ ہم ایک خاص حد سے اوپر اٹھنے والے لوگوں کی ٹانگیں کاٹنا فرض سمجھتے ہیں چنانچہ آپ ملک کی پینسٹھ سال کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس ملک میں کوئی شخص دس روپے سے کھرب پتی ہوتا یا دکان سے بزنس ایمپائر کا مالک بنتا نظر نہیں آئے گا‘ پاکستانی سیٹھ بن جاتے ہیں لیکن بزنس ٹائن کون نہیں بن پاتے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جب ذاتی زندگی سے اٹھ کر اس لیول پر پہنچتے ہیں جہاں آپ ملک کو روزگار‘کاروبار کے جدید ٹرینڈز اور نیا شعبہ دے سکتے ہیں تو پوری حکومتی مشینری اور پورا معاشرہ آپ کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں چوہدری سرور جیسے لوگوں کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اوریہ ریورس گیئر لگا دیتے ہیں‘ آپ اپنے مقابلے میں چین کو دیکھئے چین میں 2006ء میں کوئی ارب پتی نہیں تھالیکن آج وہاں 95 ارب پتی ہیں‘ یہ چینی سسٹم اور معاشرے کی کامیابی ہے۔
چوہدری سرور گورنر شپ کے لیے آئیڈیل ترین امیدوار ہیں اور میں میاں نواز شریف کے اس فیصلہ کو سراہتا ہوں کیونکہ یہ علامتی عہدہ ہے اور اس علامتی عہدے پر چوہدری سرورکی موجودگی سے ملک کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو گا اور تارکین وطن کی حوصلہ افزائی بھی‘ ہمارے گورنر ہائوسز میں ماضی میں ایسے ایسے لوگوں کا قبضہ رہا ہے کہ تاریخ کو بھی ان کا نام لکھتے ہوئے شرم آتی ہے‘ ہم نے ان میں سے کسی شخص کی تعیناتی پر اعتراض نہیں کیا تھا مگر ہمیں چوہدری سرور قابل قبول نہیں‘ کیوں؟کیا چوہدری سرور غلام مصطفی کھر یا لطیف کھوسہ سے چھوٹے انسان ہیں؟ کیا ان کی ذات پر ان لوگوں سے زیادہ داغ ہیں؟ یقیناً نہیں‘ یہ پروفائل میں ان دونوں بلکہ اسی فیصد سابق گورنرز سے زیادہ معتبر ہیں لہٰذا پھر ہم ان پر اعتراض کیوں کر رہے ہیں‘ ہم اس شخص کو عزت کیوں نہیں دینا چاہتے جسے برطانیہ کا سسٹم بیس سال تک عزت دیتا رہا‘ جسے گوروں نے مان لیا؟ کیوں‘ آخر کیوں؟۔

BISEDGKHAN MATRIC ANNUAL 2013 RESULT

BISEDGKHAN MATRIC ANNUAL 2013 RESULT


                                             



                                     Board of Intermediate and Secondary Education DG Khan has announced
                                                               Matriculation Annual 2013 Result.

Please Click the link below to view your  result and detail marks sheet


Rethinking Malala’s UN visit ............Exprees Tribune Story


                                                                 
                                                                 syed.ali@tribune.com.pk




The recent speech given by Malala at the UN youth assembly has provoked opposing feelings, which reflect a disturbingly sharp divide in our society.
Malala’s supporters are proud of her bravery, her defiance of the Taliban, and they are impressed by her message of forgiveness, as well as the enormous reception she has got at the UN.
On the other hand, are the numerous denouncements of Malala. Many of those critical of Malala are not unlettered people given that much of this criticism has appeared on social media. Soon after Malala’s UN speech, a plethora of comments began appearing on Twitter and Facebook, calling her an American or a CIA agent. Others blamed the CIA for attacking her, or claimed that her wounds had been faked to tarnish the image of Pakistan. A Taliban leader has subsequently written Malala a letter claiming that the attack on her was provoked by her attempts to malign the Taliban and their cause, rather than her desire to get an education. The letter also suggested that Malala should return home and enrol in a madrassa.
This ongoing controversy surrounding Malala has been noticed abroad as well. For instance, a recent article in Time Magazine claims that there was widespread sympathy for Malala after she was shot, but since then, the mood has turned darker. The article cites a public opinion survey by the Washington-based International Republican Institute which found that a majority of Pakistanis do not blame the Taliban for the attack on Malala. It goes on to assert that conspiracy theories are rife in Pakistan, which are, in turn, blamed on years of dictatorship and suppression of press freedoms. While the article mentions the Raymond Davis incident and drone attacks lending some substance to conspiracy theories and anti-American feelings, it asserts that Pakistanis find it easier to cast blame on external factors and concludes that a major reason that Malala has been spurned as a local hero is her acceptance by the West.
Unfortunately, our own behaviour helps fuel the negative stereotypes about Pakistan abroad. While the UN was marking ‘Malala Day’, the Pakistani government didn’t do much to register the occasion. While some politicians praised her informally, others like the chief minister of Punjab considered her speech somewhat unconvincing by commenting that it was written for global consumption and tried to please everyone.
However, the fact that Malala referred to Buddha, Gandhi, Mandela, Badshah Khan and Mother Teresa was indeed appropriate given that she was speaking at a global forum. Claims that Malala is a secret agent of some sort, or she has defamed Pakistan to get a British passport (Mukhtaran Mai had also faced a similar accusation) are preposterous as well.
If there was anything unsettling about this entire event, it was seeing the UN’s blatant attempt to showcase and parade Malala in the effort to raise its own credibility. Seeing the UN endorsement of Malala’s heroism does seem a bit cringe-worthy given the impotency of the UN in challenging the US invasion of Iraq without a Security Council resolution, or doing much about the ensuing havoc unleashed in Muslim countries around the world since 9/11. Seeing Gordon Brown, the former prime minister of a country with a shameful colonial past, as the Special Envoy for Youth, benevolently praising Malala for her bravery, did not make one feel any better.
It was, however, great to see her back a petition calling for urgent global action to ensure the right of every child to safely attend school and to hear of her plans to devote her life for the education of girls. I am not sure who helped young Malala with her speech, but they could certainly have been a bit more reflexive. Instead of making her sound profusely grateful to the UN for supporting her, it would have been wise to also point out some of the broader global discords which compound problems confronted by ordinary citizens in countries like Pakistan.

ڈیوڈ کیمرون کھاگئے دھوکا اپنے وزیر کے نام پر بنے جعلی اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کردیا




ایکسپریس : سوشل ویب سائٹس پر بنائی جانے والی فیک آئی ڈیز اور جعلی اکاؤنٹ سے عام لوگ تو دھوکا کھا ہی جاتے ہیں، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی جھانسے میں آگئے۔
برطانوی وزیراعظم نے ’’ورک اینڈ پنشن‘‘ کے وزیر Iain Duncan Smithکو ان کی فلاحی اصلاحات کے حوالے سے ٹوئٹ کیا، وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ جس اکاؤنٹ کو وہ Iain Duncan Smith کا سمجھتے ہوئے ٹوئٹ کر رہے ہیں، وہ دراصل ایک ’’پیروڈی اکاؤنٹ‘‘ واضح رہے کہ سوشل ویب سائٹس پر معروف شخصیات کے ایسے پیروڈی اکاؤنٹس بنانے کا رجحان عام ہے۔
برطانوی وزیراعظم کے ٹوئٹ پر اس اکاؤنٹ سے ری ٹوئٹ کے ذریعے انھیں فلاحی اصلاحات کے پروگرام کے حوالے سے خوب مشورے دیے گئے۔ جب تک وزیراعظم کو اپنی اس غلطی کا پتا چلتا، تب ان یہ دل چسپ واقعہ کتنے ہی چہروں پر مسکراہٹ بکھیر چکا تھا۔

Thursday 25 July 2013

Punjab University Admissions

Punjab University announces admissions. Baloch students are encouraged to apply.

                                                

سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو مات دیکر سیریز جیت لی


                                                                 



سینٹ لوشیا: پانچویں اور آخری ون ڈے میں پاکستان نے میزبان ویسٹ انڈیز کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 4 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز 1-3 سے اپنے نام کرلی۔
سینٹ لوشیا کے بیوسجور کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستانی کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا، ویسٹ انڈیز نے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 242 رنز بنائے، کپتان ڈیوائن براوو 48، مارلن سیمیولز 45 اور جانسن چارلس 43 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ دیگر کھلاڑیوں میں ڈیون اسمتھ 7، ڈیرن براوو 9، کرس گیل 21 اور لینڈی سمنز 25 رنز بنا کر پویلین لوٹ جبکہ ڈیرن سیمی 29 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
پاکستان کی جانب سے جنید خان خان نے 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جبکہ محمد عرفان اور سعید اجمل 2،2 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
243 رنز کا ہدف پاکستان نے آخری اوور میں 6 وکٹوں کے نقصان پر پورا کرلیا، کپتان مصباح الحق نے ایک بار پھر ذمہ دارانہ اور شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیریز کی مسلسل تیسری نصف سنچری بنائی اور 63 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، 4 کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد وکٹ کیپر بیٹسمین عمر اکمل نے مصباح الحق کا بھرپور ساتھ دیا اور 37 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اننگز کے آغاز پر احمد شہزاد اور ناصر جمشید نے محتاط انداز اپنایا تاہم پھر 51 کے مجموعی اسکور پر ناصر جمشید 23 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے، ان کے آؤٹ ہونے کے بعد محمد حفیظ کریز پر آئے لیکن 11 رنز بنا کر وہ بھی آؤٹ ہوگئے، احمد شہزاد نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے 64 رنز بنائے جبکہ حارث سہیل 17 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
ویسٹ انڈیز کے لئے ٹینو بیسٹ نے سب سے زیادہ 3 وکٹیں حاصل کی جبکہ ڈیرن سیمی اور جیسن ہولڈر ایک ایک وکٹ لینے میں کامیاب رہے۔ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر مصباح الحق کو مین آف دی میچ اور مین آف دی سیریز سے نوازا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان 1988 کے بعد کبھی بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف اس کی سرزمین پر ایک روزہ سیریز نہیں ہارا تھا اور اس نے اس تسلسل کو آج بھی برقرار رکھا

بھارت خود حملے کراتا ہے؟


                                                   

                                                                  ڈاکٹر نوید اقبال انصاری



گزشتہ ہفتے ایک سابق بھارتی افسر نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے۔ اخبارات میںشہ سرخیوں کے ساتھ خبر شائع ہوئی کہ بھارتی وزارت داخلہ کے ایک سابق افسر نے انکشاف کیا ہے کہ پارلیمنٹ اور ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے اور اس بات کا واضح ثبوت خفیہ ایجنسیوں کے ایک عہدیدار کے پاس بھی موجود ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھی خبر شائع ہوئی کہ بھارتی وزارت داخلہ کے انڈر سیکریٹری آر وی ایس مان نے دستخط کے ساتھ ایک حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایا ہے کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل عہدیدار ستیش ورما نے انھیں بتایا ہے کہ دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی دہشت گرد حملے طے شدہ اور یہ انسداد دہشت گردی قوانین کو مضبوط بنانے کے لیے کرائے گئے تھے۔
پاکستان کے ٹی وی چینلز نے اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی ٹاک شو کیے جن میں بھارتی مبصرین اور صحافیوں سے بھی رائے لی گئی۔ ایک بھارتی مبصر کا کہنا تھا کہ یہ اتنی بڑی خبر نہیں جتنی کہ پاکستان یا اس کا میڈیا بنا رہا ہے کیونکہ یہ محض ایک شخص کا بیان ہے۔ یقیناً یہ اقبال جرم کرنا آسان نہیں، بھارت کے بیشتر تجزیہ نگار اور صحافی اس کو معمولی بات قرار دینے کی کوشش میں لگے رہے۔ ان کا کام ایسا ہی کرنا تھا کیونکہ یہ ان کی بھارتی وفا اور ملکی محبت یا ان کے مفادات کا تقاضا ہے، لیکن بھارتی افسر کا مذکورہ بیان ہی نہیں ایک طویل عرصے سے حقائق سامنے آرہے ہیں کہ جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت ہی یہ سب کچھ کروا رہا ہے اور یہ بات ہے کہ اس مشن میں کچھ ایسے لوگوں کو استعمال کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہو کہ جن کا تعلق گرین پاسپورٹ سے بنتا ہو۔
تاریخی حقائق جو بھارت میں ہونے والے ہندو مسلم فساد اور دہشت گردی سے متعلق ہیں واضح کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے حکومتی ہاتھ ضرور ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا ممبئی کا واقعہ اس کا الزام پاکستان پر لگانا تو آسان ہے، ممبئی حملے کے ملزم کو آئی سی یو سے انٹرویو دیتے ہوئے میڈیا پر ویڈیو دکھانا بھی کوئی مشکل کام نہیں لیکن جب آئی سی یو سے یہ ملزم اعتراف جرم کرتے ہوئے یہ کہے کہ ’’بھگوان بہتر کرے گا‘‘ تو کوئی بھی باہوش شخص یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اس ملزم کا تعلق کسی جہادی گروپ سے ہے کیونکہ جہادی تو دور کی بات ایک عام آدمی بھی جو موت کے منہ میں جانے کے قریب ہو وہ لفظ اﷲ کے بجائے بھگوان بھول کر بھی ادا نہیں کرسکتا۔
بالفرض بھارتی مبصرین کا یہ موقف مان بھی لیا جائے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے سے متعلق بھارتی افسر کا یہ بیان کہ یہ بھارت نے خود کرائے، محض ایک فرد کا بیان ہے جس کی کوئی بڑی حیثیت نہیں، تو بھلا بھارتی اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے آنجہانی سربراہ ہیمنت کرکرے کی ان تحقیقاتی رپورٹس کے بارے میں کیا کہا جائے جو اس نے بھارت میں ہونے والے مختلف دہشت گردی اور ہندو مسلم فسادات سے متعلق پیش کرکے یہ راز کھول دیا تھا بلکہ پنڈورابکس کھول دیا تھا کہ ایسے واقعات میں خود بھارتی افواج کے حاضر سروس ملازم شامل ہیں۔
بھارتی اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق:
1۔ مالے گاؤں میں ہونے والے بم دھماکوں میں انتہاپسند ہندو ملوث تھے، ریٹائرڈ بھارتی فوجی میجر رمیش ایادھیا اور حاضر سروس فوجی کرنل پروہت ان میں ملوث تھا۔
2۔ حیدرآباد کی مکہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکوں میں ہندو رائٹ ونگ ملوث تھا۔ان واقعات کے سلسلے میں ہیمنت کرکرے نے تفتیش کی بنیاد پر بھارتی فوج کے کرنل سری کانت پروہت اور ایک سادھو سمیت 11 افراد کو گرفتار کیا جن کا تعلق انتہا پسند ہندو جماعت ابھینو بھارت سے تھا۔
3۔ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کا بھی مرکزی کردار تھا اور اسی نے بھارتی فوجی ڈپو سے دھماکوں کے لیے مواد حاصل کیا تھا۔
4۔ اپریل 2006 میں مہاراشٹر کے شہر بند میں ہونے والا دھماکا راشٹریہ سوئم سنگھ (RSS) نامی تنظیم کی جانب سے بم بنانے کے دوران ہوا، جائے وقوعہ سے مسلمانوں کے جعلی لباس، داڑھیاں اور مسلم عمارتوں کے نقشے بھی برآمد ہوئے۔
مندرجہ بالا تحقیقات کے علاوہ بھی ہیمنت کرکرے نے بہت سے راز ایسے حاصل کرلیے تھے جو ثابت کر رہے تھے کہ بھارتی واقعات میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں تو شامل ہیں ہی مگر اس کی پشت پناہی بھارتی فوج اور حکمراں طبقے میں سے کچھ افراد ضرور کر رہے ہیں۔
چنانچہ جوں جوں ہمنت کرکرے یہ راز اٹھاتا گیا، ہیمنت کرکرے کو انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے دھمکیاں ملتی گئیں اور بالآخر ممبئی کے واقعے کے بعد ہیمنت کرکرے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کی موت بھی چند ایک سوال کر رہی تھی جس سے ثابت ہورہا تھا کہ یہ واقعہ بھارت کے اپنوں ہی کا کارنامہ ہے پاکستان کا نہیں۔ مثلاً:
1۔ ہیمنت کرکرے تین اعلیٰ پولیس افسران کے ساتھ کاما اسپتال کی گلی میں کیوں گیا جبکہ یہ پروٹوکول کے خلاف بھی تھا کہ تین اعلیٰ افسران کے ساتھ اس طرح حرکت کی جائے۔
2۔ جس گاڑی میں ہیمنت کرکرے کو ہلاک کیا گیا وہاں موجود کانسٹیبل ادون جادھو گولیاں لگنے سے زخمی ہوگیا تھا اس کا بیان تھا کہ حملہ آوروں نے ہیمنت کرکرے پر گولیاں مارنے کے بعد جب آگے بڑھنے لگے تو ان میں سے کسی نے کہا کہ دیکھو ہیمنت کرکرے نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی ہے، اس کے بعد حملہ آوروں نے دوبارہ ہیمنت کرکرے پر فائرنگ کردی۔
3۔ بھارتی حکومت کی جانب سے پولیس افسران کو ہلاکت پر ایک ایک کروڑ روپے جبکہ ہیمنت کرکرے کی بیوی کو تین کروڑ روپے امداد دی۔ ناقدین کا خیال تھا کہ یہ رقم بیوہ کو خاموش کرانے کے لیے دی گئی ہے۔
4۔ بی بی سی نے ممبئی ہوٹل کے جن متاثرین کے انٹرویو اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے ان میں اکثر نے یہ بتایا کہ ہوٹل سے باہر نکلنے کے لیے جن راستوں کی طرف پولیس جانے کا کہہ رہی تھی وہ خطرناک تھے، جو لوگ پولیس کے کہنے والے راستے پر گئے ان کا نقصان زیادہ ہوا اور جو اپنی مرضی سے گئے وہ محفوظ رہے، گویا پولیس ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھانا چاہتی تھی؟
مختصراً یہ کہ بھارت میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں اٹھائے جانے والے سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان سوالات سے بات واضح ہوتی ہے کہ بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ خود قتل کرکے اوروں سے پوچھیں وہ کیا ماجرا ہوا؟
یہ پاکستان حکومت کی غفلت اور ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کہ ہم اس پہلو سے کبھی بھی تحقیق نہ کرسکے حالانکہ ماضی میں طیارے اغوا ہونے سے متعلق کئی ’’وارداتیں‘‘ بھی یہ ثابت کرچکی تھیں کہ بھارت کے حکمران یہ کھیل خود شروع کرتے ہیں اور الزام پاکستان پر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ اب نواز شریف کی نئی حکومت کا کام ہے کہ وہ محض دو طرفہ تجارت پر ہی خارجہ پالیسی تشکیل نہ دے بلکہ ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دے جس میں اس قسم کے واقعات سے متعلق بھارت سے جواب طلبی بھی کی جاسکے۔

ٹیم میں تمام خرابیوں کی جڑ مصباح ہیں، عبدالرزاق کا الزام


                                                      




 آل راؤنڈر عبدالرزاق نے ٹیم میں تمام خرابیوں کی جڑ مصباح الحق کو قرار دے دیا، ان کا کہنا ہے کہ کپتان کی
 دفاعی حکمت عملی  اور حد سے زیادہ سست بیٹنگ سے دیگر بیٹسمینوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق آل راؤنڈر عبدالرزاق گذشتہ برس ستمبر میں سری لنکا میں کھیلے جانے والے ورلڈ ٹوئنٹی 20 کے بعد سے ٹیم سے باہر ہیں، وہ اس کی وجہ کپتان مصباح الحق اور ان کے نائب محمد حفیظ کو قرار دیتے ہیں، غیرملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اب بھی پاکستان کے لیے کھیلنے کی امید برقرار ہے، مجھ میں ابھی دو برس کی کرکٹ باقی اور پورا یقین ہے کہ میرا وقت جلد آئے گا۔
33 سالہ عبدالرزاق نے مصباح الحق کے بارے میں کہا کہ وہ بیحد سست بیٹنگ کرتے اور بہت زیادہ گیندیں ضائع کرتے ہیں، اس سے ان کے ساتھ کھیلنے والے اور بعد میں آنے والے بیٹسمینوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، اگر کپتان دفاعی انداز میں بیٹنگ کرے تو اس سے ڈریسنگ روم کے ماحول پر بُرااثر پڑتا ہے۔

JAVED CHAHUDARY ON DHA and Supreme Court Decision


                بچنی