Thursday, 25 July 2013

بھارت خود حملے کراتا ہے؟


                                                   

                                                                  ڈاکٹر نوید اقبال انصاری



گزشتہ ہفتے ایک سابق بھارتی افسر نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے۔ اخبارات میںشہ سرخیوں کے ساتھ خبر شائع ہوئی کہ بھارتی وزارت داخلہ کے ایک سابق افسر نے انکشاف کیا ہے کہ پارلیمنٹ اور ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے اور اس بات کا واضح ثبوت خفیہ ایجنسیوں کے ایک عہدیدار کے پاس بھی موجود ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھی خبر شائع ہوئی کہ بھارتی وزارت داخلہ کے انڈر سیکریٹری آر وی ایس مان نے دستخط کے ساتھ ایک حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایا ہے کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل عہدیدار ستیش ورما نے انھیں بتایا ہے کہ دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی دہشت گرد حملے طے شدہ اور یہ انسداد دہشت گردی قوانین کو مضبوط بنانے کے لیے کرائے گئے تھے۔
پاکستان کے ٹی وی چینلز نے اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی ٹاک شو کیے جن میں بھارتی مبصرین اور صحافیوں سے بھی رائے لی گئی۔ ایک بھارتی مبصر کا کہنا تھا کہ یہ اتنی بڑی خبر نہیں جتنی کہ پاکستان یا اس کا میڈیا بنا رہا ہے کیونکہ یہ محض ایک شخص کا بیان ہے۔ یقیناً یہ اقبال جرم کرنا آسان نہیں، بھارت کے بیشتر تجزیہ نگار اور صحافی اس کو معمولی بات قرار دینے کی کوشش میں لگے رہے۔ ان کا کام ایسا ہی کرنا تھا کیونکہ یہ ان کی بھارتی وفا اور ملکی محبت یا ان کے مفادات کا تقاضا ہے، لیکن بھارتی افسر کا مذکورہ بیان ہی نہیں ایک طویل عرصے سے حقائق سامنے آرہے ہیں کہ جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت ہی یہ سب کچھ کروا رہا ہے اور یہ بات ہے کہ اس مشن میں کچھ ایسے لوگوں کو استعمال کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہو کہ جن کا تعلق گرین پاسپورٹ سے بنتا ہو۔
تاریخی حقائق جو بھارت میں ہونے والے ہندو مسلم فساد اور دہشت گردی سے متعلق ہیں واضح کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے حکومتی ہاتھ ضرور ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا ممبئی کا واقعہ اس کا الزام پاکستان پر لگانا تو آسان ہے، ممبئی حملے کے ملزم کو آئی سی یو سے انٹرویو دیتے ہوئے میڈیا پر ویڈیو دکھانا بھی کوئی مشکل کام نہیں لیکن جب آئی سی یو سے یہ ملزم اعتراف جرم کرتے ہوئے یہ کہے کہ ’’بھگوان بہتر کرے گا‘‘ تو کوئی بھی باہوش شخص یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اس ملزم کا تعلق کسی جہادی گروپ سے ہے کیونکہ جہادی تو دور کی بات ایک عام آدمی بھی جو موت کے منہ میں جانے کے قریب ہو وہ لفظ اﷲ کے بجائے بھگوان بھول کر بھی ادا نہیں کرسکتا۔
بالفرض بھارتی مبصرین کا یہ موقف مان بھی لیا جائے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے سے متعلق بھارتی افسر کا یہ بیان کہ یہ بھارت نے خود کرائے، محض ایک فرد کا بیان ہے جس کی کوئی بڑی حیثیت نہیں، تو بھلا بھارتی اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے آنجہانی سربراہ ہیمنت کرکرے کی ان تحقیقاتی رپورٹس کے بارے میں کیا کہا جائے جو اس نے بھارت میں ہونے والے مختلف دہشت گردی اور ہندو مسلم فسادات سے متعلق پیش کرکے یہ راز کھول دیا تھا بلکہ پنڈورابکس کھول دیا تھا کہ ایسے واقعات میں خود بھارتی افواج کے حاضر سروس ملازم شامل ہیں۔
بھارتی اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق:
1۔ مالے گاؤں میں ہونے والے بم دھماکوں میں انتہاپسند ہندو ملوث تھے، ریٹائرڈ بھارتی فوجی میجر رمیش ایادھیا اور حاضر سروس فوجی کرنل پروہت ان میں ملوث تھا۔
2۔ حیدرآباد کی مکہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکوں میں ہندو رائٹ ونگ ملوث تھا۔ان واقعات کے سلسلے میں ہیمنت کرکرے نے تفتیش کی بنیاد پر بھارتی فوج کے کرنل سری کانت پروہت اور ایک سادھو سمیت 11 افراد کو گرفتار کیا جن کا تعلق انتہا پسند ہندو جماعت ابھینو بھارت سے تھا۔
3۔ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کا بھی مرکزی کردار تھا اور اسی نے بھارتی فوجی ڈپو سے دھماکوں کے لیے مواد حاصل کیا تھا۔
4۔ اپریل 2006 میں مہاراشٹر کے شہر بند میں ہونے والا دھماکا راشٹریہ سوئم سنگھ (RSS) نامی تنظیم کی جانب سے بم بنانے کے دوران ہوا، جائے وقوعہ سے مسلمانوں کے جعلی لباس، داڑھیاں اور مسلم عمارتوں کے نقشے بھی برآمد ہوئے۔
مندرجہ بالا تحقیقات کے علاوہ بھی ہیمنت کرکرے نے بہت سے راز ایسے حاصل کرلیے تھے جو ثابت کر رہے تھے کہ بھارتی واقعات میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں تو شامل ہیں ہی مگر اس کی پشت پناہی بھارتی فوج اور حکمراں طبقے میں سے کچھ افراد ضرور کر رہے ہیں۔
چنانچہ جوں جوں ہمنت کرکرے یہ راز اٹھاتا گیا، ہیمنت کرکرے کو انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے دھمکیاں ملتی گئیں اور بالآخر ممبئی کے واقعے کے بعد ہیمنت کرکرے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کی موت بھی چند ایک سوال کر رہی تھی جس سے ثابت ہورہا تھا کہ یہ واقعہ بھارت کے اپنوں ہی کا کارنامہ ہے پاکستان کا نہیں۔ مثلاً:
1۔ ہیمنت کرکرے تین اعلیٰ پولیس افسران کے ساتھ کاما اسپتال کی گلی میں کیوں گیا جبکہ یہ پروٹوکول کے خلاف بھی تھا کہ تین اعلیٰ افسران کے ساتھ اس طرح حرکت کی جائے۔
2۔ جس گاڑی میں ہیمنت کرکرے کو ہلاک کیا گیا وہاں موجود کانسٹیبل ادون جادھو گولیاں لگنے سے زخمی ہوگیا تھا اس کا بیان تھا کہ حملہ آوروں نے ہیمنت کرکرے پر گولیاں مارنے کے بعد جب آگے بڑھنے لگے تو ان میں سے کسی نے کہا کہ دیکھو ہیمنت کرکرے نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی ہے، اس کے بعد حملہ آوروں نے دوبارہ ہیمنت کرکرے پر فائرنگ کردی۔
3۔ بھارتی حکومت کی جانب سے پولیس افسران کو ہلاکت پر ایک ایک کروڑ روپے جبکہ ہیمنت کرکرے کی بیوی کو تین کروڑ روپے امداد دی۔ ناقدین کا خیال تھا کہ یہ رقم بیوہ کو خاموش کرانے کے لیے دی گئی ہے۔
4۔ بی بی سی نے ممبئی ہوٹل کے جن متاثرین کے انٹرویو اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے ان میں اکثر نے یہ بتایا کہ ہوٹل سے باہر نکلنے کے لیے جن راستوں کی طرف پولیس جانے کا کہہ رہی تھی وہ خطرناک تھے، جو لوگ پولیس کے کہنے والے راستے پر گئے ان کا نقصان زیادہ ہوا اور جو اپنی مرضی سے گئے وہ محفوظ رہے، گویا پولیس ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھانا چاہتی تھی؟
مختصراً یہ کہ بھارت میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں اٹھائے جانے والے سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان سوالات سے بات واضح ہوتی ہے کہ بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ خود قتل کرکے اوروں سے پوچھیں وہ کیا ماجرا ہوا؟
یہ پاکستان حکومت کی غفلت اور ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کہ ہم اس پہلو سے کبھی بھی تحقیق نہ کرسکے حالانکہ ماضی میں طیارے اغوا ہونے سے متعلق کئی ’’وارداتیں‘‘ بھی یہ ثابت کرچکی تھیں کہ بھارت کے حکمران یہ کھیل خود شروع کرتے ہیں اور الزام پاکستان پر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ اب نواز شریف کی نئی حکومت کا کام ہے کہ وہ محض دو طرفہ تجارت پر ہی خارجہ پالیسی تشکیل نہ دے بلکہ ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دے جس میں اس قسم کے واقعات سے متعلق بھارت سے جواب طلبی بھی کی جاسکے۔

No comments:

Post a Comment