Monday 29 July 2013

دوسروں سے برتاؤ کا فن اور مستقل مزاجی...............سید ضمیر بخاری (ایکسپریس نیوز)

چارلس شواب امریکہ کی تاریخ کا سب سے کامیاب منیجر تھا۔کیا اس میں انتظامی مہارت بہت زیادہ تھی؟ تو اس کا جواب ہے نہیں!
کئی دوسرے، منیجرز اس بھی زیادہ مہارت کے حامل تھے تو پھر چارلس شواب زیادہ کامیاب منیجر کیوں تھا؟اس لئے کہ چارلس شواب کو ایک فن آتا تھا دوسروں سے کام لینے کافن!اس کا کہنا تھا کہ میرا اثاثہ میری مسکراہٹ ہے جو میں لاکھوں ڈالرز کے عوض بھی نہیں بیچوں گا۔کیا یہ طریقہ کسی اور کے لئے بھی کارآمد ہو سکتا ہے؟ بالکل امریکہ میں ہی فولاد کی صنعت کے بادشاہ ’’اینڈریو کارنیگی‘‘ نے بھی اسی طریقہ پر عمل کرکے کامیابی حاصل کی تھی، اس کی قبر پر لگے کتبہ پر لکھا ہے ’’ یہاں پر وہ شخص سو رہاہے جو اپنے سے زیادہ ذہین،با صلاحیت، ماہر اور ہوشیار لوگوں سے کام لینے کا فن جانتا تھا‘‘ کیا آپ بھی یہ فن سیکھ کر کامیابی کی راہ پرچلنا چاہیں گے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ان اصولوں پر عمل کریں۔
1۔کام کروانے کے لئے درخواست کا طریقہ بہترین ہے۔ جس سے درخواست کی جائے گی وہ اپنی عزت افزائی کی وجہ سے خوشی سے جوش کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوگا، اس کے برعکس ہر وقت حکم          چلانا اس کے کام میں جوش نہیں لاتا بلکہ وہ صرف فرض ادا کرتا ہے۔ اس اصول کو اپنے ملازمین، دوستوں، بیوی بچوں پر آزما کر تو دیکھیںکہ وہ کتنی خوش دلی سے آپ کا کام کرتے ہیں۔
2۔ دوسروں کے فائدے کو سامنے لانے کی عادت ڈال لیں، کسی کو کام کرنے کا کہنے سے پہلے اس کام سے اُس کو ملنے والے فائدے ضرور بتائیں تاکہ اُس کے لئے کام کی اہمیت بڑھ جائے۔
3۔ سچی تعریف کرنا بھی دوسروں میں کام کرنے کی ایک امنگ پیدا کرتا ہے مگر یاد رہے صرف سچی تعریف جو کہ دل سے ہو خوش آمد نہیں کیونکہ یہ خود غرضی ہوتی ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
4۔ دوسروں سے کام لینے کا ایک اور طریقہ ’’للکار‘‘ ہے دوسروں کی صلاحیتوں کو للکاریںاور ان کو ایک چیلنج دیں للکار کام کرنے کے جذبے اور جوش کو بڑھاتی ہے۔
5۔ کام مکمل ہو جانے پر ستائش کی عادت کو پختہ کر لیں۔ اس بات کو مان لیں کہ آپ سمیت دنیا کا ہر شخص اپنی ستائش کا متوالا ہے جب آپ ان کی یہ خواہش پوری کرتے ہیں تو وہ کام کرکے آپ کی خواہش پوری کرتے ہیں۔

سات سال کے بچے کو اُس کے گھر والے گھر سے باہر جاکر کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں، اس بچے کو اپنے خاندان کی کفالت کرنی ہے، نو سال کی عمر میں اس کی ماں مرجاتی ہے۔جب وہ بڑا ہوتا ہے تو یہ نوجوان قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن 21 سالوں میں اس نے صرف ایک سال پڑھا ہے اس کے پاس کوئی تعلیم نہیںہے۔ 22 سال کی عمر میں اس کو سٹور کلرک کی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ 23 ویں سال میں ریاست کی قانون ساز اسمبلی کاالیکشن لڑتا ہے اور ہار جاتا ہے،اسی سال وہ کاوربار میں قسمت آزمائی کرتا ہے اور بھاری قرضے کے نیچے دب جاتاہے۔ 27 کی عمر میں اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوجاتا ہے۔ دو سال بعد وہ اسمبلی کے سپیکر کے طور کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوتا ہے ۔
31 ویں سال میں ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتاہے،35ویں سال تک وہ دوبار کانگریس کا مقابلہ ہارتا ہے تاہم وہ ایک مختصر مدت کے لئے کانگریس کا ممبر بنتا ہے لیکن وہ دوبارہ منتخب ہونے کا موقع گنوا دیتا ہے۔41 سال کی عمرکو پہنچ کر اُس کا چار سال کا بیٹا مرجاتا ہے، 42 ویں سال وہ لینڈ آفیسر کے طور پر رد کردیا جاتا ہے۔ 45کی عمر میں وہ سینٹ کی سیٹ کے لئے مقابلہ کرتاہے اور ہارتا ہے، وہ نائب صدر کی نامزدگی بھی ہار جاتا ہے۔49 ویں سال وہ پھر سے سینٹ کی سیٹ ہارتا ہے مگر 51 ویں سال کی عمر میں وہ امریکہ کا صدر منتخب ہو جاتا ہے اور تاریخ اس کو امریکہ کے کامیاب صدر کے طور پر یاد رکھتی ہے اس شخص کا نام تھا ابرہام لنکن۔ ابرہام لنکن کی اس کامیابی کی وجہ کیا ہے جبکہ وہ ہرجگہ ناکام رہا تھا تو اس کا جواب ہے مستقل مزاجی، جس کا آج ہمارے اندر فقدان ہے۔

کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ یہ مثالیں صرف امریکہ یا یورپ کے ممالک میں ہی ہیں تو اس کا جواب ہے کہ یہ آفاقی اصول ہیں اور ہر جگہ کامیاب ہیںجس کسی نے ان پر عمل کیا وہ یقینی طور پر کامیاب ہوا۔ڈاکٹر کازو اناموری کا کہنا ہے ’’کامیابی اور ناکامی کے درمیان کاغذ کی ایک دیوار ہوتی ہے لیکن لوگ اس کے قریب پہنچ کر اس کو رکاوٹ سمجھ کر راستہ بدل لیتے ہیںجب کہ اس وقت ایک معمولی سے دھکے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ مگر یہ بھی یاد رہے کہ مستقل مزاجی اور ضد میں بڑا فرق ہے اگر آپ ایک کام کرنے کے اہل نہیں ہیں اور آپ کے مزاج سے بھی ہم آہنگ نہیں تو پھرآپ اپنی ضد کو مستقل مزاجی کا نام مت دیں، اس لئے کہ اس مضمون میں ہم آپ کو ایک نیا انداز دے رے ہیں خالی ضد پے اڑے ر ہنے کی تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔
آج کل نوجون اپنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے اپنی ترقی کو خود ہی ریورس گئیر لگادیتے ہیں بلکہ اگر آپ غور کریں تو ہماری روز مرہ کی گفتگو بھی اسی طرزِعمل کی عکاسی کرتی ہے۔ دو دوست جب بھی کچھ عرصے کے بعد ملتے ہیں تو حال احوال پوچھنے کے بعد پہلا جملہ یہی منہ سے نکلتا ہے ’’ سناؤ آج کل کیا کر رہے ہو؟ یعنی ہم نے تو یہ یقین کررکھا ہے اس تھوڑے سے عرصے میںموصوف نے اپنا کام بدل ہی لیا ہوگا۔ آپ نے پہلے غور نہیں کیا تو اب ضرور کیجئے گاآپ کسی شعبہ زندگی میں ہوں آپ کو مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ زندگی کی شاہراہ پر کامیابی سے چلنے کے لئے آپ کے پاس دوسروں سے کام لینے کا فن اور اپنے مقاصد میں کامیابی کیلئے اپنے بنائے گئے منصوبے پر اس انداز میں کام کرنا کہ کبھی بھی آپ کو اپنی کامیابی پر کوئی شک نہ ہو اور مستقل مزاجی سے اس پر لگے رہیں، آپ نہ صرف یہ کہ کامیابی کے اعلیٰ معیار پر ہوں گے بلکہ آپ کی یہی چیز دوسروں کی نظر میں آپ کا وقار بنا دے گی اور لوگ آپ کی مثال دیا کریں گے کہ آپ نے کس طرح سے اپنی ذہانت، حسنِ سلوک اور مستقل مزاجی سے وہ کردیکھایا جو دوسروں کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔

زندگی میں کون ایسا شخص ہے جس کو مواقع نہ ملے ہوں لیکن ہر کوئی کامیاب نہیں ہوپاتا تو اس کی وجہ وہ نہیں جو نظر آتی ہے بلکہ اس کا لوگوں سے برتاؤ اور کام میں اس کی دلچسبی اور مستقل مزاجی کا نہ ہونا ہے۔ جو کرنا ہے اس کو پوری توجہ، ذہانت، قوت، وسائل، حکمتِ عملی اور مستقل مزاجی سے کریں، کبھی بھی بددل نہ ہوں۔ مشکلوں سے نہ گھبرائیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مشکل آ جائے تو ہرگز یہ مت کہں کہ اف میرے خداکتنی بڑی مشکل ہے بلکہ یوں کہیں اے مشکل میرا خدا تجھ سے بڑا ہے میں اس کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہوں تو رک تو سہی کہ ابھی میں تجھے حل کرتا ہوں۔ آخر میں ایک قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک شہزادی سمندر کی سیر کر رہی تھی کہ اچانک اس کی انگوٹھی پانی میں جاگری۔ اس نے بادشاہ کو بتایا، بادشاہ نے اعلان کروا دیاکہ جو شخص شہزادی کی انگوٹھی کو ڈھونڈ کرلائے گا اس کو ایک بڑا انعام ملے گا۔ مختلف غوطہ خور آئے اور انہوں نے انگوٹھی تلاش کرنے کی کوشش کی مگر جلد ہی ہمت ہار گئے۔
اسی دوران ایک نوجوان سمندر کے کنارے آیا اس نے پوچھا کہ آپ کیوں غوطہ خوری کر رہے ہو۔اس کو بتایا گیا کہ شہزادی کی انگوٹھی گم ہو گئی ہے وہ ڈھونڈ رہے تھے مگرنہیں ملی اس نے پوچھا کیا وہ یہاں ہی گری تھی۔ جواب ملا ہاں، یہ سن کر اس نے ایک برتن لیا سمندر سے پانی نکالنے لگا لوگوں نے کہا یہ کیا کر رہے ہواس نے کہا پانی نکال کے سمندر خشک کروں گا اور انگوٹھی ڈھونڈ لوں گا۔ لوگ اس کا مذاق اُڑا کر چلے گئے لیکن یہ اپنے کام میں لگا رہا اور برتن بھر بھر کے پانی نکالتا رہا۔ سمندر میں مچھلیوںکی ملکہ نے پوچھا کہ کنارے پر یہ شخص کیا کر رہا ہے ؟ مچھلیوں نے کہا یہ سمندر خشک کرکے شہزادی کی انگوٹھی تلاش کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر ملکہ نے کہا جلدی سے انگوٹھی تلاش کر کے سمندر سے باہر پھینک دو یہ مستقل مزاج آدمی کہیں واقعی سمندر خشک نہ کر دے۔

No comments:

Post a Comment