شیخ حفیظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ یہ زندگی کی 76 بہاریں دیکھ چکے ہیں‘ شیخ صاحب نے بھرپور زندگی گزاری‘ جوانی میں یورپ گئے اور پورا یورپ ٹرینوں‘ بسوں اور پیروں پر دیکھ ڈالا‘ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی‘ ناکام رہے‘ پاکستان واپس آئے‘ مختلف جابز کیں‘ ان سے تھک گئے تو بینک میں ملازمت کر لی‘ یہ ان کی آخری ملازمت تھی‘ یہ پوری زندگی کے لیے بینکر بن کر رہ گئے‘ یہ 1997ء میں ایک بڑے بینک سے سینئر نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور16 برسوں سے ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ جوانی میں رمل کے شوق میں بھی مبتلا ہو گئے‘ رمل کا علم سیکھا اور مہارت حاصل کر لی‘ یہ کتابیں پڑھنے کے بھی شیدائی ہیں‘ یہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں اور یہ برسوں سے شوگر کی دوا بنانے میں بھی مصروف ہیں غرض آپ جس زاویے سے دیکھیں آپ شیخ صاحب کو ایک دلچسپ اور شاندار انسان پائیں گے۔
میری ان سے پہلی ملاقات 1999ء میں ہوئی‘ میں اس وقت تازہ تازہ ’’مشہور‘‘ ہوا تھا اور یہ ’’مشہوری‘‘ مجھ سے روزانہ بے شمار غلطیاں کرواتی تھی‘ پھر شیخ صاحب ملے اور انھوں نے میری نکیل پکڑ لی‘ یہ زندگی کے ہر معاملے میں میری رہنمائی کرنے لگے‘ ان کا پہلا سبق بہت دلچسپ تھا‘ ان کا کہنا تھا آپ جتنے بھی طاقتور ہو جائیں‘ آپ جتنے بھی کامیاب ہو جائیں‘ آپ وقت کو واپس نہیں پلٹ سکتے مثلاً آپ ساٹھ سال کی عمر میں دنیا کے امیر ترین شخص ہو جائیں اور آپ اپنی ساری دولت خرچ کر دیں تو بھی آپ بیس پچیس سال کے جوان نہیں ہو سکیں گے چنانچہ آپ جوانی کے کام جوانی ہی میں کرو‘ انھیں بڑھاپے کے لیے بچا کر نہ رکھو‘ ان کا کہنا تھا ’’میں دنیا دیکھنا چاہتا تھا‘ میں افریقہ‘ امریکا‘ جنوبی ایشیا اور آسٹریلیا دیکھنا چاہتا تھا مگر میں پھر جاب میں پھنس گیا اور ہمیشہ یہ سوچتا رہا میں جب معاشی لحاظ سے آزاد ہو جاؤں گا تو میں اپنی یہ خواہش پوری کروں گا‘ میں پچاس پچپن سال کی عمر میں خوش حال ہوگیا مگر اس وقت تک میرا جسم بوڑھا بن چکا تھا‘ میں شوگر کا مریض ہو چکا تھا۔
مجھے بلڈ پریشر کی بیماری بھی لگ چکی تھی لہٰذا میں ’’افورڈ‘‘ کرنے کے باوجود ملک سے باہر نہیں جا سکتا تھا‘ زندگی کے ہر شوق کی ایک عمر ہوتی ہے‘ اگر یہ عمر گزر جائے تو پھر آپ ’’افورڈ‘‘ کرنے کے باوجود وہ شوق پورا نہیں کر سکتے ‘ میرا مشورہ ہے آج کے دن میں زندہ رہنا سیکھو کیونکہ کل آ جائے گا لیکن آج دوبارہ نہیں آئے گا‘‘ اور میں نے یہ سیکھ لیا‘ میں نے اپنے شوق کی فہرست بنائی‘ ان کے سامنے عمر کے وہ حصے لکھے جن میں یہ ممکن ہیں اور پھر ان کی تکمیل میں جت گیا‘ اس فہرست میں سفر‘ جاگنگ‘ ایکسرسائز‘ریستوران‘ جینز‘ فلمیں‘دنیا بھر کے کامیاب لوگوں سے ملاقاتیں اور کتابیں شامل ہیں‘ ان کا دوسرا سبق ’’واک‘‘ تھا‘ میں لیٹ سوتا ہوں چنانچہ صبح نہیں اٹھ سکتالہٰذا میں واک کی روٹین نہیں بنا پاتا تھا‘ شیخ صاحب نے یہ ’’متھ‘‘ توڑ دی‘ انھوں نے بتایا‘ واک کا کوئی وقت اور کوئی جگہ نہیں ہوتی‘ آپ گاڑی میں جوگر رکھو اور جہاں موقع ملے‘ جو گرز پہنو اور واک شروع کر دو‘ میں نے یہ شروع کر دیا اور یوں ایک مہینے میں واک میری زندگی کا معمول بن گئی۔
شیخ حفیظ نے بتایا‘ فیملی سپریم ہوتی ہے‘ ان کا کہنا تھا ’’میرے تمام عزیز ایک ایک کر کے میری زندگی سے نکل گئے‘ دوست ساتھ چھوڑ گئے یا دور چلے گئے‘ میں اس جاب سے ریٹائر ہو گیا جس کے لیے میں نے خون‘ پسینہ اور زندگی کے قیمتی ترین دن اور رات دیے تھے‘ یوں میری زندگی سے ہر وہ چیز رخصت ہو گئی جس کو میں اہم سمجھتا تھا اور آخر میں صرف فیملی رہ گئی‘ میرے ساتھ اب صرف میرے بچے ہیں چنانچہ جس چیز نے آخری سانس تک آپ کا ساتھ نبھانا ہے اس پر کسی قسم کا ’’کمپرومائز‘‘ نہیں ہونا چاہیے‘ اسے سپریم رہنا چاہیے‘‘ میں نے یہ بات بھی پلے باندھ لی‘ میں فیملی پر کمپرومائز نہیں کرتا‘ شیخ صاحب نے سکھایا ’’ وعدہ نہیں توڑنا‘ اگر ایک بار کمٹمنٹ کر لی تو پھر اسے ٹوٹنا نہیں چاہیے اور آپ کی اس عادت کا پوری دنیا کو علم ہونا چاہیے‘ دوست بہت کم ہونے چاہئیں لیکن شاندار ہونے چاہئیں‘ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت راضی رکھیں کیونکہ اگر وہ آپ کے ساتھ ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ کے خلاف ہے۔
بچت کو آپ کے اخراجات سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے‘آپ 75 فیصد خرچ کریں صرف 25 فیصد بچائیں کیونکہ آپ اپنی خواہشوں اور حسرتوں کو دبا کر بچت کرتے ہیں اور یہ بچت کسی بھی وقت ضایع ہو سکتی ہے‘ لوگوں سے توقعات وابستہ نہ کریں‘ ان پر اعتبار کرنے سے پہلے کم از کم تین بار انھیں ٹیسٹ کر لیں‘ آپ اپنے راستے پر سیدھا چلتے رہیں‘ یہ نہ دیکھیں آپ کو کون کیا کہہ رہا ہے‘ کون آپ کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے‘آپ کسی الزام کا جواب نہ دیں کیونکہ جو لوگ آپ کو جانتے ہیں ان کی نظر میں ان الزامات کی کوئی حیثیت نہیں اور جو آپ سے واقف نہیں ہیں وہ آپ کی وضاحت کو اعتراف جرم یا دال میں کالا سمجھیں گے‘‘ شیخ صاحب نے سمجھایا‘بے غرض ہو جائو‘ لوگوں کی محتاجی سے نکل جائو گے اور انسان کا کام انسان کی سب سے بڑی پبلک ریلیشننگ ہوتا ہے‘‘ شیخ صاحب نام نہاد روحانیت کے بھی سخت خلاف ہیں‘ میں ایک وقت میں بزرگوں کی تلاش میں رہتا تھا‘ مجھے جس شخص کے سر میں راکھ نظر آتی تھی‘ میں اس میں پیر کامل تلاش کرنا شروع کر دیتا تھا۔
شیخ صاحب نے یہ ’’ متھ‘‘ بھی توڑ دی‘ یہ میرے ساتھ بزرگوں کی محفلوں میں جاتے اور انھوں نے ایک ایک کر کے تمام بزرگ بھگا دیے‘ انھوں نے ثابت کر دیا آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر تمام انسان‘ انسان ہیں اور ہم میں سے ہر شخص خطا‘ طمع اور خوف کا پتلا ہے‘ انھوں نے سمجھایا محنت سے بڑا محسن‘ نیک نیتی سے بڑا استاد اور مہارت سے بڑی کوئی جاب نہیں ہوتی‘ شیخ صاحب نے مزید دو دلچسپ چیزیں سکھائیں‘ انھوں نے بتایا‘ دوستیاں ہمیشہ اس وقت خراب ہوتی ہیں جب کوئی دوست آپ سے اپنا راز شیئر کرتا ہے اور آپ اس راز کے استعمال کی غلطی کر بیٹھتے ہیں‘ یہ مثال دیتے ہیں‘ فرض کرو آپ کا کوئی دوست آپ کو یہ بتا دیتا ہے‘ اس کے پاس اتنی رقم ہے اور آپ بعد ازاں اس سے ادھار مانگ لیتے ہیں‘ ادھار کا یہ مطالبہ آپ کا تعلق ہمیشہ کے لیے خراب کر دے گا‘ آپ کا دوست جب کوئی راز شیئر کرے تو آپ اس سے کبھی کوئی مطالبہ نہ کرو کیونکہ یہ مطالبہ بددیانتی ہو گا۔
انھوں نے دوسری بات سمجھائی آپ اپنے کسی عزیز‘ دوست یا کولیگ کے ساتھ کتنے ہی ناراض ہوں لیکن وہ شخص جب کسی ایمرجنسی میں آپ کو فون کرے تو آپ اپنی ناراضی کا اظہار نہ کریں‘ آپ فوری طور پر اس کی مدد کریں اور کام ہونے کے بعد وہ اگر شکریہ ادا کرنے آئے تو آپ ہلکے پھلکے انداز میں اسے سمجھا دیں تم نے فلاں وقت میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی‘ میں تم سے ناراض تھا مگر مجھ سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں گئی اور میں اختلاف اور ناراضی کے باوجود تمہارے ساتھ چل پڑا‘ شیخ صاحب نے سمجھایا آپ کبھی دل کے کمزور یا بے حوصلہ شخص کے لیے اسٹینڈ نہ لیں کیونکہ وہ شخص اپنے دعوے سے منحرف ہو جائے گا‘ وہ مخالف پارٹی سے صلح کر لے گا مگر آپ لوگوں سے اپنے تعلقات خراب کر بیٹھو گے‘آپ ہمیشہ ایسے بہادر اور بااصول لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جو اپنے اسٹینڈسے پیچھے نہ ہٹیں ٗجو آپ کو میدان میں اکیلا نہ چھوڑجائیں‘ انھوں نے سمجھایا‘ عزت اوردولت میں جب بھی کسی ایک کے انتخاب کا وقت آئے تو دولت کی قربانی دو کیونکہ دولت زندگی میں باربارآتی ہے مگر عزت ایک بارچلی جائے توپھرکبھی واپس نہیں آتی‘ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں بالخصوص بیٹیوں کی تمام جائز ضروریات پوری کیاکرو‘ ان کا کوئی مطالبہ یاتقاضا مسترد نہ کرو کیونکہ بچے والدین کی محبت کو پوری زندگی یاد رکھتے ہیں۔
شیخ صاحب میرے عملی استاد ہیں ‘ یہ تجربہ کار بھی ہیں‘ عالم بھی اور اس سے کہیں زیادہ نیک نیت بھی لہٰذا میں جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوتاہوں یا کسی کنفیوژن میں پھنس جاتا ہوں یا کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا تو میں شیخ صاحب سے رابطہ کرتا ہوں اور اونچی آواز میں کہتا ہوں ’’بابا جی گیدڑ آ گئے ہیں‘‘ اور شیخ صاحب کا قہقہہ نکل جاتاہے‘ گیدڑ شیخ صاحب کی ایک دلچسپ اصطلاح ہے‘ یہ کہا کرتے ہیںوسوسے اور اندیشے گیدڑ ہیں‘ یہ انسان کو اکثر گھیر لیتے ہیں اورآپ اگر ان پر قابو پانا سیکھ جائیں تو آپ مسائل کے گرداب سے نکل آتے ہیں آپ اگر یہ فن نہیں سیکھتے توگیدڑ آپ کی صلاحیتیں کھا جاتے ہیں‘ میں ان کے قہقہے کے بعد اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ اس کے دو حل تجویز کرتے ہیں‘ ایک حل علمی ہوتاہے‘ یہ پڑھی لکھی رائے ہوتی ہے اوردوسرا حل تجربہ ہوتا ہے‘ شیخ صاحب مجھے بتاتے ہیں‘ وہ زندگی کے کس حصے میں اس قسم کے مسئلے کا شکارہوئے تھے‘ انھوں نے غلط فیصلہ کیا تھا اور اس کا انھیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا‘ وہ اپنے کسی نہ کسی جاننے والے یا دوست کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور یوں ہم حل پر پہنچ جاتے ہیں‘ میں اکثر اپنے دوستوں یا جاننے والوں کوبتاتاہوں‘ میری عمرہزار سال ہے‘میں بیالیس سال کا ہوں‘ میرا استاد 76 سال کا اور ہماری کتابیں880 سال کی ہیں اور یہ ہزار سال کا تجربہ مجھے راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا۔
یہ میری زندگی کا تجربہ ہے‘ ہمارے دوست اورہمارے سیاستدان بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ آپ کی زندگی میں بھی بے شمار تجربہ کار لوگ موجود ہوں گے‘ آپ ان میں ستر پچھتر سال کے پڑھے لکھے ٗ تجربہ کار ٗ ذہین‘نیک اور بے لوث لوگ چنیں اور آپ انھیں اپنا استاد بنا لیں‘ یہ آپ کو زندگی کے بے شمار مسائل سے بچائے رکھیں گے‘ یہ آپ کوغلط مشیروں‘ غلط لوگوں اور غلط فیصلوں سے بھی محفوظ رکھیں گے آپ اگرحکمران ہیں تو آپ ایک ’’کونسل آف ایلڈرز‘‘ بنا لیں‘ یہ تجربہ کار بزرگوں کی ایک ایسی خفیہ کونسل ہو جو آپ کو مشکل وقت میں مشورے دے‘ آپ ان مشوروں پر عمل کریں اور اپنی ذات اور اپنے ملک دونوں کو مسائل سے نکال لیں‘ عربی کہاوت ہے ’’مشورے کا وقت آئے تو کبھی ذہین شخص سے مشورہ نہ کریں ٗ تجربہ کار کی مدد لیں‘‘۔
No comments:
Post a Comment